جمعرات,  12 دسمبر 2024ء
اسلامی معاشرتی اقدار کی گراوٹ: خلع کی بڑھتی ہوئی تعداد اور اس کے اثرات
اسلامی معاشرتی اقدار کی گراوٹ: خلع کی بڑھتی ہوئی تعداد اور اس کے اثرات

اسلام آباد(روشن پاکستان نیوز) اسلامی معاشرتی اقدار کی مضبوطی ہمیشہ ہمارے معاشرے کی پہچان رہی ہے، جہاں خاندان کی اہمیت، رشتہ داری کی مضبوطی اور حقوق و فرائض کا توازن سچائی، عدل اور ہمدردی پر مبنی ہوتا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے، آج ہمارے معاشرے میں اخلاقی اور سماجی اقدار میں گراوٹ دیکھنے کو مل رہی ہے، جس کا اثر بالخصوص ازدواجی زندگیوں پر پڑ رہا ہے۔ خلع جیسی انتہائی اقدام کا بڑھتا ہوا رجحان اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ ہمارے معاشرتی رویے اور تعلقات میں کمزوری آئی ہے۔

خلع کی بڑھتی ہوئی تعداد:

خلع ایک ایسی مذہبی اور قانونی اجازت ہے جس میں عورت اپنی مرضی سے شوہر سے علیحدگی اختیار کرتی ہے۔ یہ عمل اسلامی قوانین کے مطابق ہے، مگر اس کا استعمال اس وقت تک ہی درست سمجھا جاتا ہے جب میاں بیوی کے درمیان تعلقات میں عدم تفہیم یا شدید اختلافات پیدا ہوں۔ بدقسمتی سے، آج کل خلع کا رجحان ایک بیماری کی صورت اختیار کر چکا ہے اور یہ اسلامی معاشرتی اقدار کے برخلاف نظر آتا ہے۔ ایک طرف جہاں اسلامی معاشرتی زندگی میں صبر، تحمل، اور ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھنے کی تعلیم دی گئی ہے، وہاں دوسری طرف خلع کی بڑھتی ہوئی تعداد معاشرتی گراوٹ کا اشارہ دیتی ہے۔

فردوس جمال کا کیس:

حال ہی میں مشہور اداکار فردوس جمال کی بیوی 35 سال کی شادی کے بعد خلع لے رہی ہے۔ اس واقعہ نے ایک بار پھر اس مسئلے کو اجاگر کیا ہے کہ ہمارے معاشرے میں ایک طرف جہاں ازدواجی تعلقات میں مشکلات بڑھ رہی ہیں، وہیں دوسری طرف کچھ افراد ان مسائل کا حل خلع میں تلاش کرتے ہیں۔ فردوس جمال کے کیس میں اس قدر طویل ازدواجی زندگی کے بعد علیحدگی کا فیصلہ ایک سنگین سوال اٹھاتا ہے کہ ہمارے معاشرتی تعلقات کیوں اتنے کمزور ہوگئے ہیں کہ 35 سالہ شادی کو بھی نبھایا نہ جا سکا۔

معاشرتی اقدار اور ان کی گراوٹ:

ہمارے معاشرتی اقدار میں کچھ ایسی تبدیلیاں آئیں ہیں جنہوں نے ازدواجی تعلقات کو کمزور کر دیا ہے۔ پہلے جہاں والدین اور بزرگوں کی طرف سے شادیوں کی کامیابی کے لیے صبر، سمجھوتہ اور تعاون کی اہمیت پر زور دیا جاتا تھا، آج کل کی تیز رفتار زندگی اور فرد کی ذاتی خواہشات نے ان روایات کو پس پشت ڈال دیا ہے۔ معاشرتی دباؤ، معاشی مشکلات، اور بیویوں کی طرف سے زیادہ حقوق کی مانگ جیسے عوامل نے ازدواجی تعلقات میں دراڑ ڈالنی شروع کر دی ہے۔

خلع کے اسباب:

خلع کے پیچھے مختلف اسباب ہو سکتے ہیں جیسے:

  1. مواصلات کا فقدان: جب میاں بیوی کے درمیان کھلا اور ایماندارانہ رابطہ نہیں ہوتا تو مسائل پیچیدہ ہو جاتے ہیں۔
  2. مالی مسائل: معاشی بحران، بے روزگاری یا کم آمدنی کی وجہ سے تعلقات میں کشیدگی بڑھ سکتی ہے۔
  3. شخصی توقعات کا اختلاف: افراد کی مختلف توقعات اور ذاتی خواہشات ازدواجی تعلقات کو مشکلات میں مبتلا کر سکتی ہیں۔
  4. ہوس اور ناانصافی: بعض اوقات شوہر یا بیوی کی جانب سے ناانصافی، عدم محبت یا بے وفائی کا سبب بھی ہوتا ہے۔

اسلامی تعلیمات کی روشنی میں:

اسلام میں ازدواجی زندگی کو نہایت اہمیت دی گئی ہے۔ قرآن و سنت میں بیوی اور شوہر دونوں کے حقوق و فرائض کو واضح طور پر بیان کیا گیا ہے اور دونوں کے درمیان صبر، سمجھوتہ، اور ایک دوسرے کے ساتھ حسن سلوک کی اہمیت پر زور دیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:

“اور ان کے درمیان عدل و انصاف کے ساتھ رہو، اور اگر تمہیں ان کے درمیان اختلاف ہو تو صلح کراؤ”۔ (النساء: 35)

اسلام میں طلاق اور خلع کا فیصلہ آخری حل کے طور پر رکھا گیا ہے، اور اس سے پہلے دونوں فریقین کو ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے کہ وہ اپنے اختلافات کو ختم کریں اور صلح کریں۔

حل اور تجاویز:

  1. تعلیمی پروگرامز اور آگاہی: معاشرتی اقدار اور ازدواجی تعلقات کی اہمیت کے بارے میں آگاہی بڑھانے کے لیے تعلیمی پروگرامز اور ورکشاپس کا انعقاد ضروری ہے۔
  2. مشاورت اور میڈی ایشن: میاں بیوی کے درمیان اختلافات کو حل کرنے کے لیے پیشہ ورانہ مشاورت اور میڈی ایشن کی خدمات کا فائدہ اٹھایا جانا چاہیے۔
  3. خاندانی تعاون: خاندان کے بزرگوں کا کردار ازدواجی تعلقات کو مستحکم کرنے میں بہت اہم ہوتا ہے، اس لیے انہیں اس عمل میں مدد دینی چاہیے۔
  4. اسلامی تعلیمات کی ترویج: اسلامی تعلیمات کے مطابق محبت، معافی، اور سمجھوتہ کرنے کی اہمیت کو فروغ دینا ضروری ہے۔

خلع کا بڑھتا ہوا رجحان ہمارے معاشرتی اور ثقافتی نظام میں ایک سنگین مسئلہ بن چکا ہے۔ یہ ایک واضح اشارہ ہے کہ ہمیں اپنی روایات، اسلامی تعلیمات، اور ازدواجی تعلقات کو بچانے کے لیے مزید سنجیدگی سے سوچنے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم اپنے معاشرتی اقدار کی اہمیت کو سمجھیں اور اپنے معاشرتی رویوں کو درست کریں تو ہم نہ صرف ازدواجی زندگی کی مضبوطی کو یقینی بنا سکتے ہیں بلکہ اپنے معاشرے میں بھی استحکام لا سکتے ہیں۔

مزید پڑھیں: پاکستانی معاشرے کو اسلامی معاشرہ بنانے کی کوشش کریں گے، ڈاکٹر شبیر میثمی

مزید خبریں