اسلام آباد(شہزاد انور ملک) سوشل میڈیا نے گزشتہ چند برسوں میں دنیا بھر کے افراد اور اداروں کے لیے کئی مثبت تبدیلیاں اور مواقع فراہم کیے ہیں، تاہم اس کے ساتھ ساتھ اس نے کئی منفی اثرات بھی مرتب کیے ہیں۔ پاکستان میں بھی سوشل میڈیا کا اثر روز بروز بڑھ رہا ہے اور اس کا ایک واضح اثر حکومتی اداروں اور ان کے اہلکاروں پر بھی دیکھا جا رہا ہے۔ حالیہ دنوں میں کراچی کے ایک پولیس افسر اور ایک خاتون کے درمیان ٹک ٹاک ویڈیو وائرل ہونے کے بعد سوشل میڈیا کے اثرات پر سوالات اٹھنے لگے ہیں کہ آیا یہ پلیٹ فارم اداروں کے وقار کو نقصان پہنچانے کا باعث بن رہا ہے یا نہیں۔
واقعہ کی تفصیلات
کراچی کے علاقے کورنگی میں پولیس کے ایک اہلکار کی ویڈیو وائرل ہوئی ہے جس میں وہ پولیس یونیفارم میں ملبوس خاتون کے ساتھ سگریٹ نوشی کرتے ہوئے ٹک ٹاک ویڈیو بناتے دکھائی دے رہے ہیں۔ اس ویڈیو کے وائرل ہونے کے بعد سوشل میڈیا پر شدید ردعمل آیا اور لوگوں نے پولیس کے اس رویے پر سخت تنقید کی۔ ویڈیو میں دکھائی دینے والی خاتون ٹک ٹاکر کی تلاش جاری ہے، جبکہ پولیس افسر صفدر کو معطل کر دیا گیا ہے اور انچارج ناصر چوکی ہیڈ کانسٹیبل عبداللہ شاہ کو بھی غیر ذمہ داری کے الزام میں شوکاز نوٹس جاری کر دیا گیا ہے۔
سوشل میڈیا کا اثر
سوشل میڈیا نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ یہ صرف تفریحی مواد کا ذریعہ نہیں رہا، بلکہ یہ ایک طاقتور پلیٹ فارم بن چکا ہے جو عوامی رائے بنانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اس ویڈیو کے وائرل ہونے کے بعد عوام نے نہ صرف اس ویڈیو کو ہنسی مذاق کے طور پر لیا، بلکہ اسے ایک ادارہ جاتی بدعنوانی اور غیر پیشہ ورانہ رویے کی علامت کے طور پر بھی دیکھا۔ اس واقعے نے یہ سوال کھڑا کیا کہ جب اہم ادارے اور ان کے اہلکار ایسے غیر پیشہ ورانہ رویے کا مظاہرہ کرتے ہیں تو سوشل میڈیا پر ان کی یہ ویڈیوز کتنی جلدی وائرل ہو کر ادارے کی ساکھ کو متاثر کرتی ہیں۔
اداروں کی ساکھ پر اثرات
پاکستان جیسے ترقی پذیر ملکوں میں جہاں ریاستی ادارے پہلے ہی عوامی اعتماد میں کمی کا شکار ہیں، سوشل میڈیا ان کی ساکھ کو مزید نقصان پہنچا سکتا ہے۔ ایک ایسی ویڈیو جو کہ بظاہر ایک معمولی تفریحی ویڈیو لگتی ہے، وہ ادارے کے بارے میں عوامی رائے کو یکسر بدل سکتی ہے۔ جب کوئی اہلکار یا افسر ایسا غیر ذمہ دارانہ سلوک کرتا ہے تو سوشل میڈیا پر اس کی فوری تشہیر ادارے کے ساکھ کو متاثر کرتی ہے اور اس سے ادارے کی مجموعی کارکردگی اور غیرت کی تصویر بھی مجروح ہو جاتی ہے۔
اداروں کی حکمت عملی اور ردعمل
اس واقعے کے بعد پولیس کے اعلیٰ حکام نے فوراً ایکشن لیتے ہوئے اس معاملے کی تحقیقات شروع کیں اور متعلقہ افسران کے خلاف محکمانہ کارروائی کا آغاز کیا۔ ایس ایس پی کورنگی نے پولیس افسر صفدر کو معطل کر دیا اور انچارج ناصر چوکی ہیڈ کانسٹیبل عبداللہ شاہ کو شوکاز نوٹس جاری کیا۔ اس کے علاوہ، پولیس یونیفارم میں ملبوس خاتون ٹک ٹاکر کی تلاش بھی شروع کر دی گئی ہے تاکہ اسے بھی قانون کے دائرے میں لایا جا سکے۔
یہ ایک مثبت اقدام ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا سوشل میڈیا کے اثرات کو نظر انداز کیا جا سکتا ہے؟ کیا ہم ایسے واقعات سے سبق سیکھتے ہیں اور اداروں کو سوشل میڈیا کے ذریعے ہونے والے نقصان سے بچا سکتے ہیں؟ ان اقدامات کے باوجود، ایک بار جب ایسی ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہو جاتی ہیں تو ان کا اثر عوامی رائے پر پڑنا شروع ہو جاتا ہے، اور یہی اثر اداروں کی ساکھ پر طویل مدتی اثرات مرتب کرتا ہے۔
مزید پڑھیں: 16 سال سے کم عمر بچوں کے سوشل میڈیا استعمال پر پابندی کا اعلان
سوشل میڈیا کا غیر ذمہ دارانہ استعمال
ایک اور اہم نکتہ یہ ہے کہ سوشل میڈیا کے استعمال میں ایک غیر ذمہ دارانہ رجحان ابھر رہا ہے، جہاں لوگ اپنی ذاتی زندگی کی تفصیلات اور سرگرمیاں عوامی سطح پر شیئر کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے، چاہے وہ ان کے ادارے کے وقار کے لیے نقصان دہ ہو۔ اس طرح کے واقعات اداروں کی پروفیشنلزم اور اخلاقی معیاروں پر سوالات اٹھاتے ہیں۔
پولیس اہلکاروں اور دیگر سرکاری اداروں کے ملازمین کو خاص طور پر سوشل میڈیا کے استعمال میں محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ انہیں یہ سمجھنا ہوگا کہ ان کی ذاتی سرگرمیاں ان کے پیشہ ورانہ کردار پر اثر انداز ہو سکتی ہیں اور یہ ادارے کی ساکھ اور عوامی اعتماد کو متاثر کر سکتی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا کمپنیوں کو بھی اس بات کی ذمہ داری لینی ہوگی کہ وہ ایسے مواد کو جو کسی ادارے یا فرد کی ساکھ کے لیے نقصان دہ ہو، فوری طور پر ہٹائیں یا اس پر سختی سے کارروائی کریں۔
نتیجہ
یہ واقعہ ایک یاد دہانی ہے کہ سوشل میڈیا کا استعمال اداروں اور افراد کی ذاتی زندگی سے آگے بڑھ کر ان کی پیشہ ورانہ زندگی پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔ اگر ادارے اور ان کے اہلکار اس بات کو سمجھیں کہ سوشل میڈیا کا غیر محتاط استعمال ان کی ساکھ کو کیسے نقصان پہنچا سکتا ہے، تو شاید ہم اس کے منفی اثرات کو کم کر سکیں گے۔ اس کے علاوہ، اداروں کو اپنے اہلکاروں کے لیے واضح گائیڈلائنز مرتب کرنی ہوںگی تاکہ وہ سوشل میڈیا پر اپنے رویے اور مواد کے بارے میں محتاط رہیں اور اپنے پیشہ ورانہ کردار کو متاثر ہونے سے بچائیں۔