اسلام آباد(روشن پاکستان نیوز) دنیا بھر میں ’سائبر ٹیرارزم‘ (سائبر دہشت گردی) کی اصطلاح کا استعمال اکثر کیا جاتا ہے۔ ڈوروتھی ڈیننگ ایک مشہور امریکی محقق ہیں جو سائبر سیکیورٹی کے امور پر مہارت رکھتی ہیں۔
وہ ’سائبر ٹیررازم‘ کی تعریف کچھ یوں پیش کرتی ہیں: سیاسی یا معاشرتی مقاصد کے حصول کے لیے کمپیوٹرز یا ان سے منسلک نیٹ ورک پر کسی حکومت کو نقصان پہنچانے کے لیے کیے گئے حملے سائبر ٹیرارزم کہلاتے ہیں۔
یہاں ایک سوال اور بھی اہم ہے کہ کیا آن لائن پروپیگینڈا یا غلط معلومات پھیلانے کو ’دہشت گردی‘ قرار دیا جا سکتا ہے؟
ڈیجیٹل رائٹس ایکسپرٹ حجا کامران کہتی ہیں کہ ’پروپیگنڈا اور ڈِس انفارمیشن کو ڈیجیٹل دہشت گردی نہیں کہا جا سکتا کیونکہ دہشت گردی کا مفہوم بالکل مختلف ہے اور اس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ کوئی سخت کارروائی کی جا رہی ہے اور وہ بھی بغیر فیئر ٹرائل کے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اس صطلاح کا استعمال دراصل ’آن لائن سپیس پر اپنا کنٹرول بڑھانا ہے اور ایک ڈر کو فروغ دینا ہے تاکہ لوگ اپنے بنیادی حقوق کا استعمال نہ کریں۔‘
حجا کامران کے مطابق ’پروپیگینڈا اور ڈِس انفارمیشن کی روک تھام شواہد پر مبنی فیکٹ چیکنگ کے ذریعے ہونا چاہیے، نہ کہ اسے دہشت گردی کہہ کر جرم قرار دینا چاہیے۔‘
انٹرنیٹ کی بندش ہے اس لیے ان کی جانب سے کیا گیا کام تاخیر کا شکار ہو سکتا ہے۔
یہ نوٹ پاکستان تحریکِ انصاف کی جانب سے بھی اپنے ایکس اکاؤنٹ کے ذریعے شیئر کیا گیا اور متعدد انفلوئنسرز نے بھی اسے شیئر کیا ہے۔
پاکستان بھر میں انٹرنیٹ سروس شدید متاثر
پاکستان بھر میں انٹرنیٹ سروس گزشتہ کئی روز سے شدید متاثر ہیں جس کی وجہ سے آن لائن کاروبار سے منسلک افراد اور صارفین مشکلات کا شکار ہیں۔
رپورٹ کے مطابق ملک بھر میں انٹرنیٹ سروس گزشتہ کئی روز سے شدید متاثر ہیں جس کی وجہ سے جہاں عام صارفین شدید مشکلات کا شکار ہیں وہیں آن لائن کاروبار سے منسلک افراد کا کام بھی متاثر ہو رہا ہے اور ان کا روزگار خطرے میں پڑ گیا ہے۔
انٹرنیٹ چل تو رہا ہے، لیکن رفتارانتہائی سست ہے، خصوصاً ڈیٹا پر انٹرنیٹ سروسز خلل کا شکارہیں، جس کے باعث ای کامرس سے وابستہ اور آن لائن کاروبار کرنے والے افراد کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔
فری لانسرز ودیگر سوشل میڈیا صارفین بھی شکایات کرتے نظر آ رہے ہیں۔ رابطوں کی سب سے مقبول سائٹ واٹس ایپ پر رابطہ بھی مشکل ہو گیا ہے۔ موبائل اور سوشل میڈیا سروس میں تعطل پر قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے آئی ٹی نےنوٹس لیا ہے۔
مزید پڑھیں: پاکستان میں انٹرنیٹ سروسز شدید متاثر، واٹس ایپ اور دیگر پلیٹ فارمز بھی سست
ویڈیو دیکھنی ہو یا کوئی تصویر اپ لوڈ کرنی ہو۔ واٹس ایپ پر رابطہ کرنا ہو یا پھر آن لائن خریداری، سب کچھ سست روی کا شکار ہے اور ملک بھر کے مختلف شہروں میں سست انٹرنیٹ اسپیڈ موضوعِ بحث بنی ہوئی ہے۔
ریئل ٹائم انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کی بندش اور مانیٹرنگ سروس ڈاؤن ڈیٹیکٹر ڈاٹ پی کے کے مطابق گزشتہ جمعہ سے کراچی، اسلام آباد، لاہور اور فیصل آباد سمیت دیگر شہروں میں واٹس ایپ اور انسٹاگرام سروس سست ہونے کی شکایات سامنے آئیں۔
کمیٹی کے سربراہ امین الحق نے چیئرمین پی ٹی اے حفیظ الرحمان کو بھی طلب کر لیا ہے۔
ماہرین کے مطابق انٹرنیٹ سست ہونے کی تکنیکی وجوہات ہیں۔ سائبر امور کے ماہرین کہتے ہیں کہ کیبل کی کوالٹی، ڈیجیٹل ٹریفک بڑھنا اور موسمیاتی تبدیلیاں انٹرنیٹ سروس کو متاثر کرتی ہیں۔
کیا دنیا کے دوسرے ممالک میں ’ڈیجیٹل دہشت گردی‘ کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے؟
برطانیہ میں واقع تھنک ٹینک ’اسلامک تھیولوجی آف کاؤنٹر ٹیرارزم‘ کے ڈپٹی ڈائریکٹر فاران جعفری سجھتے ہیں کہ ڈیجیٹل دہشت گردی ایک انتہائی غیر واضح اصطلاح معلوم ہوتی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’مغربی لبرل جمہوریتوں میں ریاست یا فوج پر کی جانے والی تنقید کو آزادی اظہار رائے کے زمرے میں دیکھا جاتا ہے۔‘
’ہاں اگر کسی سرکاری افسر کو اس کے مذہب، فرقے یا قومیت کی بنیاد پر تنقید کا نشانہ بنایا جائے تو اسے نفرت انگیزی قرار دیا جاتا ہے۔ ایسے ہی اگر لوگوں کو اُکسایا جائے کہ وہ فوج پر حملہ کریں تو ایسے میں ملزمان پر دہشتگردی سمیت متعدد دفعات لگائی جا سکتی ہیں۔‘
فاران جعفری کے مطابق یہ کہنا مشکل ہوگا کہ پاکستانی فوج خود پر ہونے والی تنقید کے لیے ڈیجیٹل دہشت گردی جیسی غیر واضح اصطلاح کیوں استعمال کر رہی ہے۔
’ہو سکتا ہے کہ سوشل میڈیا پر خود پر ہونے والی تنقید کے لیے کوئی سخت اصطلاح کی تلاش میں ہوں۔‘
تاہم وہ سمجھتے ہیں کہ سوشل میڈیا پر فوج پر کی جانے والی کچھ تنقید ان کی سمجھ سے بھی بالاتر ہے۔
’مثال کے طور پر ایکس (ٹوئٹر) پر کچھ اکاؤنٹس ہلاک ہونے پاکستانی فوجیوں کا مذاق اڑا رہے ہوتے ہیں اور کچھ لوگ فوج پر طالبان کے حملوں کی تعریف کر رہے ہوتے ہیں، یہ ریڈ لائن عبور کرنے کے مترادف ہے۔‘
تاہم وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کے موجودہ قوانین سوشل میڈیا پر ہونے والی نفرت انگیزی کو روکنے کے لیے کافی ہے۔