اسلام آباد(روشن پاکستان نیوز)کسی بھی ملک کی معاشرت اور اس کی تہذیب کی عکاسی وہاں رہنے والے افراد کی زندگی ، ان کے اطوار ، ان کی سوچ اور ان کے رویوں سے ہوتی ہے۔جب معاشرہ اور تہذیب رو بہ زوال ہو اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو تو لازمی بات ہے اس معاشرے میں رہنے والے افراد کی زندگی اس سے لاتعلق کیسے رہ سکتی ہے۔
ماں باپ اپنی اولاد کی پرورش بہت اچھے سے کرتے ہیں۔ اپنی پوری کوشش کے ساتھ ،اپنی عمر بھر کی کمائی اپنی اولاد پر لگا دیتے ہیں۔ تا کہ وہ معاشرے کا کارآمد فرد بن سکے ۔
ایک ایسا معزز اور شریف انسان جس کو یہ معاشرہ قدر اور عزت کی نگاہ سے دیکھتا ہو۔
لیکن آج کل اس سوشل میڈیا کے بے پناہ استعمال اور حد سے زیادہ استعمال جو کہ صحیح چیزوں کے بجائے اب غلط کاموں میں زیادہ ہورہا ہے ۔
اس نے ہمارے معاشرے کو بے راہ روی کی طرف گامزن کر رکھا ہے۔
ہمارے معاشرے کی ایک بہت بڑی اور قابل نوجوان نسل کو بھی اپنا اس قدر اسیر بنا رکھا ہے کہ وہ اس برائی کو بھی برائی نہیں سمجھتی۔ سچ ہے جب انسان برائی کا عادی ہوجاتا ہے تو اسے برائی برائی نہیں لگتی۔ لڑکوں کا لڑکیوں سے دوستیاں کرنا ان سے مزے کرنا، باتیں کرنا اور وہ حرکتیں کرنا جو بالخصوص انڈین مویز میں دیکھائی جاتیں ہیں ۔
اس کا مطلب ہے کہ اب فن بھی صرف فن نہیں رہا ہم اسے اپنی زندگیوں میں شامل کر رہے ہیں اور اپنی زندگی کو کسی مووی یا ڈرامہ کا تصور کر کے گزارتے ہیں۔
اس عیاشی میں ہماری پڑھی لکھی نوجوان نسل سب سے آگے ہے۔
کہا جاتا ہے،نوجوانوں میں گمراہی اور بگاڑ تب پیدا ہوتا ہے جب وہ بلوغت اورنشوونما کی طرف گامزن ہوتے ہیں۔ہر لمحہ نئے تجربات اور تازہ احساسات ان کی سوچ اور فکر کی راہیں متعین کرنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں دوسری طرف جذبات کی شدت انہیں درست فیصلے کرنے نہیں دیتی یہی وہ موقع ہوتا ہے جب نوجوانوں کو رہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر اس وقت انہیں ماں باپ بزرگوں اور اساتذہ کی توجہ نہ ملے تو ان کی شخصیت میں بگاڑ پیدا ہوجاتا ہے۔
ایسا ہی کچھ ہوا ایک نیشنل ٹی وی پرگرام میں جب ایک لڑکی وظیفہ پوچھنے کے لئے کال کرتی ہے جواپنا نام اقراءبتاتی ہےاور تعلق لاہور سے ہے کہتی ہے کہ میں اپنے محبوب سے بہت پیار کرتی ہوں مگر وہ مجھے لفٹ نہیں کرواتا۔
سوال پر پروگرام کی میزبان غصے سےآگ بگولہ ہوگئیں اور کہا کہ شرم کرو،کچھ حیا کرو ،تمہاری اٹھارہ سال عمر ہے اور تم ایسے کام کر رہی ہواور ایسے ایسے اوٹ پٹانگ سوالات پوچھنے کے لئے فون کر رہی ہو۔
میزبان نے کہاکہ تمہاری ماں کو شرم سے مر جانا چاہیے جس نے تمہاری ایسی تربیت کی ہے ۔
پروگرام کی میزبان نے کہاکہ یہ سوشل میڈیا ،مختلف قسم کی ایپس فس بک ، انسٹا،ا سنیپ چیٹ،لنکڈان ،ٹیوٹر یہ سب اب اتنا عام ہوگیا ہے کہ اب موبائیل کی صورت میں سب کچھ لوگوں کو ایک ہی جگہ مہیا کیا جا رہا ہے۔ اب جہاں اس جدید ٹیکنالوجی کے فائدے ہیں، وہیں اس کے باعث ہماری نوجوان نسل بے راہ روی کی طرف بہت تیزی سے گامزن ہورہی ہے۔
لڑکوں اور لڑکیوں کے درمیان ہونے والی ایسی میسیجنگ نے آج کل سوشل میڈیا پر اپنی جگہ بنائی ہوئی ہے۔ وہ معاملات جو بڑی خاموشی سے ہمارے معاشرے کو ڈس رہے تھے، اب وہ کھل کر سامنے آرہے ہیں۔
آخر ہم کہاں ٖغلطی کر رہے ہیں ،جو ہمارے نوجوان ایسی راہ اختیار کر رہے ہیں اور ان رستوں پر جارہے ہیں۔
ایسی کیا کمی ہے جو وہ اپنی نفسی ضروریات پورا کرنے کیلے ایک غلط اور ناگزیر راہ اپنا رہے ہیں۔
اعلی تعلیم اور علم حاصل کرنے کے باوجود وہ صحیح اور ٖغلط میں فرق نہیں کر پارہے اور نہ ہی خود کو اس برائی سے روک پاتے ہیں جو دیمک کی طرح ہمارے معاشرے کوچاٹ رہی ہے۔
کیا یہ غلطی ہمارے بڑے کررہے ہیں یا یہ کمی ہمارے والدین کی تربیت میں ہے۔
آج کل معاشرے کے بدلتے رجحانات کے باعث اکثر والدین اپنے بچوں کا مغرب زدہ ہونے پر فخر کرتے ہیں۔
مسئلہ یہ ہے کہ نسلِ نو مغربی فکر وفلسفہ سے اتنی متاثر ہو چکی ہے کہ مادی دوڑ میں سب سے آگے بڑھ جانا چاہتی ہے یہ جانتے ہوئے بھی کہ مشرقی اور مغربی کی مذہبی، سماجی معاشرتی ضرورتیں اور اقدار اپنی الگ پہچان رکھتی ہیں، اس سے زیادہ نوجوان طبقہ اتنا متاثر ہوا کہ وہ نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے۔
جو اولاد کی اور خاص طور پر بیٹے کی ان حرکتوں کو جوانی کا نشہ یا مزہ اورصرف ایک فعل سمجھ کر نظر انداز کردیتے ہیں کہ لڑکے تو سب ہی یہ ہی کرتے ہیں۔
یہی وہ الفاظ ہوتے ہیں جس سے ان غلط حرکتوں کو پزیرئی ملتی ہے۔
اگر والدین اولاد کی کسی بھی غلطی کو معمولی اور عام سمجھتے ہوئے اسے نظر انداز نہ کریں بلکہ اسے غلط سمجھا اور کہا جاے اور اس پر اولاد کو روکا جاے، تو کافی حد تک انھیں اس برائی سے روکا جاسکتا ہے۔
دنیاوی تعلیم دلانے کیلیے تو والدین اولاد پر بہت پیسہ خرچ کرتے ہیں لیکن انھیں دین کی سمجھ نہیں دیتے،ان کے دل میں خوف خدا نہیں ڈالتے کہ وہ برائی سے بچ سکے۔
دین کی سمجھ اور خوف خدا ہی واحد چیز ہے جو انسان کو غلط کاموں کی طرف جانے سے روک سکتا ہے۔
خیر اور شر ہر چیز میں ہوتا ہے، یہ اب انسان پر منحصر ہے کہ وہ اس چیز کو کس لیے استعمال کرتا ہے۔ خیر حاصل کرنے اور پھیلانے کیلیے یا شر کیلیے۔