اتوار,  22 دسمبر 2024ء
چینی سفیر کا پیپلز لبریشن آرمی سالگرہ تقریب کی میزبانی پر آرمی چیف جنرل عاصم منیر سے اظہار تشکر

آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کہا ہے کہ پاک ۔ چین تعلقات باہمی اعتماد اور ایک دوسرے کی حمایت کے غیر متزلزل یقین پر مبنی ہیں۔ جی ایچ کیو راولپنڈی میں چین کی پیپلز لبریشن آرمی (پی ایل اے) کے قیام کی 97ویں سالگرہ کی تقریب ہوئی جس کی میزبانی آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے کی۔ تقریب کے مہمان خصوصی پاکستان میں چین کے سفیر جیانگ زیڈونگ تھے، جبکہ چین کے دفاعی اتاشی میجر جنرل وانگ یانگ، چینی سفارتخانے کے حکام اور تینوں مسلح افواج کے اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔

اپنے خطاب میں آرمی چیف نے چینی مہمانوں کو پی ایل اے کی سالگرہ کی مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ پیپلز لبریشن آرمی نے چین کے دفاع، سلامتی اور ترقی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاک فوج اور پیپلز لبریشن آرمی کے تعلقات بے حد مضبوط ہیں، جبکہ دونوں ملکوں کی مسلح افواج کے درمیان فوجی تعاون آہنی بھائی چارے کی واضح مثال ہے۔ چین کے سفیر نے پیپلز لبریشن آرمی کے قیام کی سالگرہ کی تقریب کی میزبانی کرنے پر آرمی چیف جنرل عاصم منیر کا شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے کہا کہ پاک فوج نے ہمیشہ انسداد دہشت گردی کے حوالے سے آگے بڑھ کر کردار ادا کیا ہے اور خطے میں قیام امن اور استحکام کے حوالے سے عظیم قربانیاں دی ہیں۔ چین کے سفیر نے مزید کہا کہ ان کا ملک دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے شانہ بشانہ کھڑا ہے، پختہ یقین رکھتے ہیں کہ دنیا کی کوئی طاقت پاکستان اور چین اور دونوں ملکوں کی مسلح افواج کے درمیان آہنی دوستی کو ختم نہیں کر سکتی۔یاد رہے کہ پیپلز لبریشن آرمی (پی ایل اے) عوامی جمہوریہ چین اور چین کی کمیونسٹ پارٹی (سی پی سی) کی مسلح افواج ہيں۔ سالانہ فوجی دن یکم اگست کو یکم اگست 1927ء کی نان چنگ بغاوت کو یاد رکھنے کے طور پر منایا جاتا ہے۔ پی ایل اے کی پانچ پیشہ ورانہ شاخوں: گراؤنڈ فورس، بحریہ، فضائیہ، راکٹ فورس اور سٹرٹيجک سپورٹ فورس پر مشتمل ہے۔ پی ایل اے تقریبا 2,285,000 اہلکاروں کے ساتھ دنیا کی سب سے بڑی فوج ہے۔ ستمبر 2015 میں سیان جن پنگ، چین کی کمیونسٹ پارٹی کے جنرل سیکرٹری اور پی ایل اے کے کمانڈر ان چیف نے فوجی اہلکاروں کی تعداد میں 300000 کمی کا اعلان کیا۔ پی ایل اے کا نشان ایک سرخ ستارہ جو یکم اگست 1927ء کی نان چنگ بغاوت کا حوالہ دیتے ہوئے ایک چینی رسم الخط ميں لکھے آٹھ کے ہندسے پر مشتمل ہے۔

پی ایل اے چین کی کمیونسٹ پارٹی (سی پی سی) کی مرکزی فوجی کمیشن کے ماتحت ہے۔ فوج کے سویلین کنٹرول کے اصول کے تحت، مرکزی فوجی کمیشن کا کمانڈر ان چیف عام طور پر چین کی کمیونسٹ پارٹی کا جنرل سیکرٹری ہوتا ہے۔ وزارت قومی دفاع جو ریاستی کونسل کے ماتحت ہے کا پی ایل اے پر کوئی اختيار نہيں اور مرکزی فوجی کمیشن کی نسبت بہت کم طاقتور ہے۔ وزارت دفاع کا بنیادی کردار ایک کمانڈنگ اتھارٹی کی بجائے غیر ملکی افواج کے ساتھ ایک رابطہ آفس کا ہے، جبکہ سیاسی افسران جو کميسار کہلاتے ہيں کی فوج کے اندر سرایت مسلح افواج پر پارٹی اتھارٹی کو یقینی بناتی ہے۔ سیاسی اور فوجی قیادت نے مل کر پی ایل اے کو ایک پیشہ ور فوجی قوت بنانے کی ٹھوس کوشش کی ہے جس کی ذمہ داریاں قومی دفاعی،ملکی معیشت کی تعمیر اور ہنگامی ریلیف میں معاونت کی فراہمی تک محدود ہيں۔ اسلحہ آپریشنز اور جدید اسلحہ سمجھ سکنے والے خصوصی افسران کو آگے لانا پی ایل اے کے کردار کا تصور ہے۔

فوجی یونٹس ملک بھر کے پانچ تھيٹروں اور 20 سے زائد فوجی اضلاع میں تفویض کی جاتی ہیں ۔فوجی سروس لازمی قانون ہے۔ تاہم چین میں لازمی فوجی سروس چین کی آبادی سے رضاکارانہ فوج ميں بھرتی ہونيوالوں کی ایک بڑی تعداد کی وجہ سے نافظ نہيں کی گئی۔ قومی ایمرجنسی کے زمانے میں مسلح پولیس اور پیپلز لبریشن آرمی ملیشیا ریزرو اور حمایتی عنصر کے طور پر پی ایل اے کے لیے کام کرتی ہيں۔یاد رہے کہ چینی مسلح افواج 23 مارچ2024 کو پاکستان کے قومی دن کے موقع پر پریڈ میں شرکت کی تھی۔ چینی پیپلز لبریشن آرمی (پی ایل اے) کا گارڈ آف آنر دستہ پاکستانی فوج کی دعوت پر یوم پاکستان پریڈ میں شرکت کے لیے پاکستان بھیجا گیاتھا۔ترجمان چائنیز وزارتِ خارجہ لین جیان کے مطابق یوم پاکستان پر مسلح افواج کی پریڈ میں چین کی پیپلز لبریشن آرمی کے دستے نے شرکت کی، پاک فوج کی دعوت پر پیپلز لبریشن آرمی کے نمائندہ وفد نے فوجی پریڈ میں شرکت کی۔ لین جیان کا کہنا تھا کہ دستے کی شرکت نے منفرد رشتے کی عکاسی اور عسکری تعلقات کے ایک نئے باب کا آغاز کیا، چین نے سٹریٹجک شراکت دار اور دوست کی حیثیت سے پاکستان کیلئے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔

ترجمان چائنیز وزارتِ خارجہ کا مزید کہنا تھا کہ بھارت اور چین کے درمیان سرحد کبھی طے نہیں ہوئی، یہاں چار مختلف طبقے ہیں اور زنگنان بھارت کے غیر قانونی قبضے سے پہلے بھی ہمیشہ چین کا حصہ رہا ہے، چین کے پاس اس خطے میں ایک موثر انتظامیہ رہی ہے اور یہ ناقابل تردید حقیقت ہے۔ لین جیان کے مطابق 1987 میں بھارت نے غیرقانونی طور پر مقبوضہ علاقے پر اروناچل پردیش قائم کیا، ہم نے بھارت کے اقدامات کے خلاف سخت بیانات جاری کیے ہیں۔خیال رہے کہ یہ پہلا موقع نہیں تھا کہ چینی فوجی یوم پاکستان کی پریڈ میں شرکت کی تھی۔ اس سے قبل 2017 میں بھی انہوں نے ایونٹ میں حصہ لیا تھا۔اس سال جون میں وزیر اعظم شہباز شریف نے 5 روزہ دورہ چین کیا تھا وزیر اعظم نے چین میں شاندار اور نتیجہ خیز دورے کے دوران گرم جوشی سے مہمان نوازی کے لیے چینی عوام اور حکومت کا شکریہ اداکیاتھا۔ اُن کا کہنا تھا کہ صدر شی جن پنگ کی دور اندیش قیادت میں چین نئی بلندیوں کو چھو رہا ہے . پاکستان اور چین کی دوستی بے مثال ہے.

دونوں ملکوں کو آئرن برادرز ہونے پر فخر ہے۔اپنے پیغام میں شہباز شریف نےمزید کہا تھاکہ اُن کا دورہ پاکستان اور چین کے تعلقات کی مضبوطی، تجارتی تعلقات و سٹریٹجک شراکت داری اور سی پیک کے دوسرے مرحلے کے آغاز کے حوالے سے اہم سنگ میل ثابت ہوا۔ سی پیک کے دوسرے مرحلے کے تحت چینی کاروباری شخصیات و سرمایہ کاروں کی پاکستانی کاروباری شخصیات اور سرمایہ کاروں سے ملاقات ہوئی۔ وزیرِ اعظم نے کہا تھا کہ چین کی انفارمیشن ٹیکنالوجی، زراعت، معدنیات و دیگر شعبوں میں ترقی قابل تقلید ہے،اور پاک چین اقتصادی شراکت داری سے دونوں ملکوں کے عوام مستفید ہوں گے۔ حالیہ دورہ چین کے دوران ہونے والی مثبت پیش رفت کے اثرات طویل مدت تک قائم رہیں گے، خیال رہے کہ شی جن پھنگ نے کمیونسٹ پارٹی آف چائنا کی 100ویں سالگرہ کی تقریب سے اپنے خطاب میں واضح کیاتھا کہ چین کو اپنی خصوصیات کی حامل ایک طاقتور فوج کی تشکیل کرنی چاہیے، پیپلز لبریشن آرمی کو بہترین عالمی معیار کی فوج میں ڈھالنا چاہیے تاکہ ملک کے اقتدار اعلیٰ ، سلامتی اور ترقیاتی مفادات کا مضبوط صلاحیت اور بھرپور اعتماد سے دفاع کیا جا سکے۔

انہوں نے زور دیا کہ پیپلز لبریشن آرمی نے پارٹی اور عوام کے لیے لافانی کارنامے سرانجام دیے ہیں جو چینی سرزمین ، قومیتی وقار کے تحفظ کا مضبوط ستون ہے اور یہ فوج علاقائی و عالمی امن کو برقرار رکھنے کی بھی ایک مضبوط قوت ہے ۔ پاکستان 1947ء میں قائداعظم کی قیادت میں آزاد ہوا جبکہ چین 1949ء میں مائوزے تنگ کی عظیم قیادت میں آزاد ہوا۔ 1949ء میں چین کی آزادی کے ساتھ ہی پاکستان اور چین کے تعلقات بہتری کی طرف گامزن ہونا شروع ہو گئے تھے۔ پاکستان نے چین کی آزادی کو تسلیم کیا۔ یہ پاکستان اور چین کی دوستی کا نقطہ آغاز تھا یا اسے اِس طرح بھی کہا جا سکتا ہے کہ یہ پاکستان اور چین کی دوستی کی ابتدا تھی۔1962ء میں بھارت اور چین کے سرحدی تنازع کا آغاز ہوا اور دونوں ملکوں کی فوجیں ایک دوسرے کے آمنے سامنے آ کھڑی ہوئیں اور ہندوستان اور چین میں سرحدی جھڑپیں شروع ہوگئیں۔ اُس وقت چین عالمی برادری سے کٹا ہوا تھا لیکن پاکستان نے اِس موقع پر چین کا بھرپور ساتھ دیا جس کی وجہ سے چین کی نظر میں پاکستان کا وقار بلند ہوا اور پاکستان اور چین کے تعلقات میں زیادہ بہتری کی طرف گامزن ہونا شروع ہو گئے۔ پاکستان اور چین دوستی کے مضبوط رشتے میں بندھنا شروع ہو گئے۔ اِس موقع پر پاکستان اور چین نے اپنے سرحدی مسائل احسن طریقے سے حل کرلیے اور یہ پاکستان اور چین کی دوستی کا کامیابی کی طرف سفر کا آغاز تھا۔1965ء میں پاک بھارت جنگ چھڑ گئی۔ اس جنگ میں چین نے پاکستان کا ہر طرح ساتھ دیا اور پاکستان کی بھرپور مدد کی اور اپنی سچی دوستی کا حق نبھایا اِس جنگ میں چین نے پاکستان کی حمایت میں جو کردار ادا کیا وہ مثالی تھا اور پاکستان اور چین کی دوستی ایک مثالی دوستی میں تبدیل ہو گئی۔1971ء میں بھارت اور پاکستان کی جنگ میں چین نے ایک بار پھر اپنی دوستی کا حق نبھایا اور پاکستان کی بھرپور مدد کی جب 1949 میں چین آزاد ہوا تو امریکا اور چین کے تعلقات اتنے بہتر نہیں تھے بلکہ کشیدگی کی طرف مائل تھے لیکن پاکستان کی کئی سالوں پر مشتمل مسلسل کوشش اور مخلصانہ جدوجہد کے نتیجہ میں اُس وقت کے امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر نے چین کا دورہ کیا۔ اس طرح امریکا اور چین کے تعلقات بہتر ہونا شروع ہو گئے اور چین کا عالمی برادری میں ایک مقام پیدا ہونا شروع ہو گیا۔

چین کو اقوام متحدہ کی مستقل رکنیت مل گئی اور چین کو اقوام متحدہ میں ویٹو پاور کا حق مل گیا۔ پاکستان کے اِس کردار کی وجہ سے چین کی نظر میں پاکستان کا وقار بہت بلند ہو گیا۔چین نے ہر موقع اور ہر مرحلے پر پاکستان کے ساتھ اپنی دوستی کو نبھایا ہے۔ چین نے سالماتی بم بنانے میں پاکستان کی دُنیا کی تمام مخالفتوں کے باوجود مدد کی۔ اس کے علاوہ چین نے پاکستان میں ٹینک سازی اور طیارہ سازی میں بھرپور مدد کی جس کی وجہ سے پاکستان کی اسلحہ سازی کی صنعت نے بہت ترقی کی اس کے علاوہ چین پاکستان کی مختلف دفاعی منصوبہ جات میں بھرپور مدد کر رہا ہے جس کی وجہ سے چین اور پاکستان کے تعلقات میں دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی ہو رہی ہے۔چین توانائی اور دیگر بہت سے منصوبہ جات میں جن میں سینڈک کا منصوبہ، گوادر پورٹ کا منصوبہ پاکستان کو ریلوے انجن کی فراہمی اور دیگر بے شمار ایسے منصوبہ جات ہیں جن میں پاکستان کو چین کی بھرپور مدد حاصل ہے جس سے پاکستان اور چین دوستی کے ایک ایسے رشتے میں بندھے ہوئے ہیں۔

پاکستان اور چین دو ایسے ملک ہیں جو دوستی کے لازوال رشتے میں بندھے ہوئے ہیں۔ یہ دوستی برسوں پر محیط ہے جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مضبوط سے مضبوط تر ہوتی جا رہی ہےپاکستان 1947ء میں قائداعظم کی قیادت میں آزاد ہوا جبکہ چین 1949ء میں مائوزے تنگ کی عظیم قیادت میں آزاد ہوا۔ 1949ء میں چین کی آزادی کے ساتھ ہی پاکستان اور چین کے تعلقات بہتری کی طرف گامزن ہونا شروع ہو گئے تھے۔ پاکستان نے چین کی آزادی کو تسلیم کیا۔ یہ پاکستان اور چین کی دوستی کا نقطہ آغاز تھا یا اسے اِس طرح بھی کہا جا سکتا ہے کہ یہ پاکستان اور چین کی دوستی کی ابتدا تھی۔1962ء میں بھارت اور چین کے سرحدی تنازع کا آغاز ہوا اور دونوں ملکوں کی فوجیں ایک دوسرے کے آمنے سامنے آ کھڑی ہوئیں اور ہندوستان اور چین میں سرحدی جھڑپیں شروع ہوگئیں۔ اُس وقت چین عالمی برادری سے کٹا ہوا تھا لیکن پاکستان نے اِس موقع پر چین کا بھرپور ساتھ دیا جس کی وجہ سے چین کی نظر میں پاکستان کا وقار بلند ہوا اور پاکستان اور چین کے تعلقات میں زیادہ بہتری کی طرف گامزن ہونا شروع ہو گئے۔ پاکستان اور چین دوستی کے مضبوط رشتے میں بندھنا شروع ہو گئے۔

اِس موقع پر پاکستان اور چین نے اپنے سرحدی مسائل احسن طریقے سے حل کرلیے اور یہ پاکستان اور چین کی دوستی کا کامیابی کی طرف سفر کا آغاز تھا۔1965ء میں پاک بھارت جنگ چھڑ گئی۔ اس جنگ میں چین نے پاکستان کا ہر طرح ساتھ دیا اور پاکستان کی بھرپور مدد کی اور اپنی سچی دوستی کا حق نبھایا اِس جنگ میں چین نے پاکستان کی حمایت میں جو کردار ادا کیا وہ مثالی تھا اور پاکستان اور چین کی دوستی ایک مثالی دوستی میں تبدیل ہو گئی۔1971ء میں بھارت اور پاکستان کی جنگ میں چین نے ایک بار پھر اپنی دوستی کا حق نبھایا اور پاکستان کی بھرپور مدد کی جب 1949 میں چین آزاد ہوا تو امریکا اور چین کے تعلقات اتنے بہتر نہیں تھے بلکہ کشیدگی کی طرف مائل تھے لیکن پاکستان کی کئی سالوں پر مشتمل مسلسل کوشش اور مخلصانہ جدوجہد کے نتیجہ میں اُس وقت کے امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر نے چین کا دورہ کیا۔ اس طرح امریکا اور چین کے تعلقات بہتر ہونا شروع ہو گئے اور چین کا عالمی برادری میں ایک مقام پیدا ہونا شروع ہو گیا۔ چین کو اقوام متحدہ کی مستقل رکنیت مل گئی اور چین کو اقوام متحدہ میں ویٹو پاور کا حق مل گیا۔ پاکستان کے اِس کردار کی وجہ سے چین کی نظر میں پاکستان کا وقار بہت بلند ہو گیا۔چین نے ہر موقع اور ہر مرحلے پر پاکستان کے ساتھ اپنی دوستی کو نبھایا ہے۔ چین نے سالماتی بم بنانے میں پاکستان کی دُنیا کی تمام مخالفتوں کے باوجود مدد کی۔

اس کے علاوہ چین نے پاکستان میں ٹینک سازی اور طیارہ سازی میں بھرپور مدد کی جس کی وجہ سے پاکستان کی اسلحہ سازی کی صنعت نے بہت ترقی کی اس کے علاوہ چین پاکستان کی مختلف دفاعی منصوبہ جات میں بھرپور مدد کر رہا ہے جس کی وجہ سے چین اور پاکستان کے تعلقات میں دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی ہو رہی ہے۔چین توانائی اور دیگر بہت سے منصوبہ جات میں جن میں سینڈک کا منصوبہ، گوادر پورٹ کا منصوبہ پاکستان کو ریلوے انجن کی فراہمی اور دیگر بے شمار ایسے منصوبہ جات ہیں جن میں پاکستان کو چین کی بھرپور مدد حاصل ہے جس سے پاکستان اور چین دوستی کے ایک ایسے رشتے میں بندھے ہوئے ہیں۔پاکستان اور چین دو ایسے ملک ہیں جو دوستی کے لازوال رشتے میں بندھے ہوئے ہیں۔ یہ دوستی برسوں پر محیط ہے جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مضبوط سے مضبوط تر ہوتی جا رہی ہےحکومت سی پیک کے تحت تمام منصوبوں اور معاہدوں کی تکیمل کے لیے پر عزم ہے ، سی پیک پاکستان کی معاشی ترقی کو فروغ دینے کے لیے ایک اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہےچین نے بھی اقوام متحدہ سمیت تمام عالمی فورمز پر پاکستان کی بھرپور حمایت سے ایک سچے دوست کا عملی ثبوت دیا ہے۔ پاکستان کو ہمیشہ سے چین کی سفارت کاری میں ترجیح حاصل رہی ہے ، چین پاکستان کے بنیادی مفادات اور اہم خدشات سے متعلق امور پر پاکستان کی بھرپور حمایت جاری رکھے ہوئے ہے۔دونوں ممالک کی خارجہ پالیسی کا ایک اہم اصول ایک دوسرے کے مفادات کا تحفظ ہےاور تمام عالمی معاملات اور تنازعات پر دونوں ممالک یکساں رائے کا اظہار کرتے آئے ہیں۔پاکستان نے ہمیشہ ایک چین کے اصول کی حمایت کی ہے اور چین کے بنیادی مفادات سے جڑے دیگر امور میں چین کے ساتھ کھڑا رہا ہے۔

اسی طرح چین نے بھی پاکستان کے مفادات سے وابستہ معاملات میں تمام کثیر الجہتی عالمی پلیٹ فارمز پر کھل کر پاکستان کی حمایت کی ہےعالمی سطح پر منفرد اور غیر معمولی نوعیت کی حامل پاکستان چین دوستی کبھی بھی وقت اور حالات کے تابع نہیں رہی ہے ۔دونوں ملکوں میں انتقال اقتدار یا پھر سیاسی سطح پر رونما ہونے والی تبدیلیوں سے قطع نظر پاک چین تعلقات ہمیشہ مثبت سمت میں آگے بڑھتے رہے ہیں سیاسی ،سفارتی ،اقتصادی ،ثقافتی ،دفاعی غرضیکہ تمام شعبہ جات میں چین پاک تعلقات کے فروغ سے روایتی مضبوط دوستی کو مزید عروج حاصل ہوا ہے ۔ دونوں ممالک نہ صرف عالمی اور علاقائی پلیٹ فارمز پر ایک دوسرے کے مضبوط حامی ہیں بلکہ ایک دوسرے کی مضبوط اقتصادی سماجی ترقی کے خواہاں بھی ہیں۔ دونوں ممالک نے برادرانہ تعلقات میں ہمیشہ مشترکہ مشاورت کے اصول کا احترام کیا ہے ، مشترکہ تعمیر کے اصول پر عمل پیرا رہتے ہوئے مشترکہ مفاد کے اصول کو ترجیح دی گئی ہے۔پاکستان چین کو عالمی سطح پر اہم ترین دوست تصور کرتا ہے اورمشکل صورتحال میں بھی دنیا نے پاک۔چین دوستی کی مضبوطی دیکھی ہے ۔چین پاک اقتصادی راہداری منصوبہ نہ صرف چین اور پاکستان بلکہ پورے خطے کی معاشی ترقی کا منصوبہ قرار دیا جا رہا ہے۔

اربوں ڈالرز سرمایہ کاری کا حامل یہ منصوبہ پاکستان کی معاشی ترقی کی راہ میں اب تک کا سب سے بڑا منصوبہ ہے جس سے یقینی طور پر پاکستان میں تعمیر و ترقی کے ایک نئے باب کا آ غاز ہو چکا ہے۔حقائق کے تناظر میں اقتصادی تعاون چین پاک تعلقات کی بنیاد ہے اور چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (بی آر آئی) کے فلیگ شپ منصوبے کے طور پر سی پیک نے دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی تعلقات کو نمایاں طور پر تقویت دی ہے۔ سی پیک نے پاکستان کے بنیادی ڈھانچے کا منظر نامہ تبدیل کر دیا ہے، رابطہ سازی، توانائی، صنعتی ترقی اور تجارت کو فروغ دیا ہے۔ ۔گزرتے وقت کے ساتھ چین پاک دوستی کی جڑیں نسل درنسل عوام کے دلوں میں مزید مضبوط ہوتی جا رہی ہیں۔پاکستانی عوام جہاں چین سے بے پناہ لگاؤ رکھتے ہیں تو چینی سماج میں بھی پاکستان کو پاتھیے قرار دیا جاتا ہے جس کا مطلب ہے فولادی بھائی۔آج چین اور پاکستان دونوں پراعتماد ہیں کہ آہنی دوستی کے اس رشتے اور برادرانہ تعلق کو ہمیشہ عروج حاصل رہے گا اور دونوں ملک مل کر ترقی و خوشحالی کی جانب گامزن رہیں گے۔

مزید خبریں