اتوار,  08  ستمبر 2024ء
محرم میں ڈیجیٹل دہشت گردی سے بچنا کیسےممکن………؟

سوشل میڈیا پرڈیجیٹل دہشت گردی تیزی سے ترقی پا رہی ہے ڈیجیٹل دہشت گردی کا مقصد قوم میں مایوسی، فوج میں تفرقہ ڈالنا ہے دشمن قوتیں اور ان کے سرپرست جھوٹ، جعلی خبروں اور پروپیگنڈے کے ذریعے ڈیجیٹلل دہشت گردی کر رہے ہیں اور مسلح افواج اور پاکستانی عوام کے درمیان تفریق پیدا کرنے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں، مگر قوم کی حمایت سے ان تمام قوتوں کے عزائم کو ناکام بنایا جائے گا۔پاکستانی عوام کے لیے یہ بہت ضروری ہے کہ وہ محرم میں ڈیجیٹل دہشت گردی کا حصہ بننے سے گریز کریں۔ محرم میں ڈیجیٹل دہشت گردی سے بچنا ممکن ہےاس مقصد کے لیے ملکی قوانین کا نفاذ وقت کی ضرورت ہے۔ محرم الحرام میں امن و امان کی یہ ذمہ داریاں صرف حکومت اور اس کے اداروں پر ہی نہیں بلکہ علماء، ذاکرین، واعظین، خطباء اور عوام الناس پر بھی عائد ہوتی ہیں۔ ماضی میں محرم الحرام کے دوران ہونے والے فسادات کو دیکھتے ہیں تو یہ بات واضح ہے کہ چھوٹی سی غیر ذمہ داری یا جذباتی اندازامن کیلئے خطرہ بن جاتا ہے ۔ پاکستان دنیا کے اُن ممالک میں بھی سر فہرست ہے جو”ڈیجیٹل دہشت گردی“ سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ سوشل میڈیا نے ملک کے طول و ارض پر ایک انقلاب برپا کر کے رکھ دیا ہے اور یہ ان علاقوں میں بھی پہنچ گیا ہے،جہاں ابھی شرح خواندگی صفر ہے۔

دیہی علاقوں میں بنیادی تعلیم سے پہلے انٹرنیٹ پہنچ جانے کی ہی وجہ ہے کہ آج ڈیجیٹل دہشت گردی سے ریاست، سیاست , صحافت سمیت کوئی شعبہ بھی اس سے محفوظ نہیں۔ آرمی چیف کی سربراہی میں ہونے والی فارمیشن کمانڈرز کانفرنس کے جاری کردہ اعلامیے میں اس ڈیجیٹل دہشت گردی کا برملا ذکر کیا گیا،جس کا واضح مقصد پاکستانی قوم میں مایوسی پھیلاناہے۔ آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے سیاسی عزائم کی تکمیل کیلئے جاری ڈیجیٹل دہشتگردی کو ریاستی اداروں کے خلاف سازش قرار دیا ہے۔ کانفرنس میں امن و استحکام کیلئے شہداء، افواجِ پاکستان، دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں اور پاکستانی شہریوں کی لازوال قربانیوں کو زبردست خراجِ عقیدت پیش کیا گیا۔ فورم نے ملکی سلامتی کی مجموعی صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے ’‘ عزمِ استحکام’’ کے مختلف پہلوؤں پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا ۔ فورم نے انسدادِ دہشت گردی کے لئے اختیار کی جانے والی حکمت عملی کے ضمن میں ”عزمِ استحکام“ کو اہم قدم اور ملک میں پائیدار استحکام اور معاشی خوشحالی کے لیے“عزمِ استحکام“ دہشت گردی اورغیر قانونی سرگرمیوں کے گٹھ جوڑ کو ختم کرنے کے لئے وقت کا اہم تقاضہ قرار دیا۔ فورم نے چند حلقوں کی جانب سے ”عزمِ استحکام“ کے حوالے سے بلاجواز تنقید اورمخصوص مفادات کے حصول کے لئے قیاس آرائیوں کرنے پر تشویس کا اظہار کیا جبکہ لاقائی سلامتی بالخصوص افغانستان کی صورتحال پر غور اور علاقائی امن و سلامتی کے فروغ کے لیے عزم کا اعادہ بھی کیا گیا۔ کانفرنس کے شرکاء نے سیاسی عزائم کی تکمیل کیلئے جاری ڈیجیٹل دہشت گردی کو ریاستی اداروں کے خلاف سازش قرار دیا۔ شرکاء نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ ریاست مخالف بیرونی طاقتوں کی سرپرستی میں جاری ڈیجیٹل دہشت گردی کا مقصد جھوٹ، جعلی خبروں اور پروپیگنڈے کے ذریعے قوم میں نفاق اور مایوسی پھیلانا ہے، فواج پاکستان اور پاکستانی قوم ان سازشوں سے نہ صرف آگاہ ہیں بلکہ دشمن کے مذموم مقاصد کو شکست دینے کیلئے پُرعزم اور متحد ہیں۔

عسکری قیادت قوم کو درپیش چیلنجز کا بخوبی ادراک رکھتی ہے اور عوام کے تعاون سے اپنی آئینی حدود میں رہتے ہوئے ایک پائیدار حل کے لئے کوشاں ہے۔ 9 مئی کے منصوبہ سازوں، سہولت کاروں کی وجہ سے پاکستان کے دشمنوں کو ریاست اور قوم کا مذاق اڑانے کا موقع فراہم کیا گیااب وہی سازشی عناصرسوشل میڈیا پرڈیجیٹل دہشت گردی سے بیانیے کو توڑ مروڑ کر ریاست کو اس مذموم کوشش میں ملوث کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جنہوں نے تاریخ کا یہ سیاہ باب رقم کیا، ایسی ذہنیت کے منصوبہ سازوں اور کرداروں کے ساتھ کوئی سمجھوتہ نہیں ہو سکتا۔ وہ معصوم لوگ جو اِن مجرمانہ عناصر کے مذموم سیاسی مقاصد ڈیجیٹل دہشت گردی کو نہیں سمجھ سکے اِن کو منصوبہ سازوں نے اپنی خواہشات کا ایندھن بنایا۔اِن ورغلائے ہُوئے لوگوں کو پہلے سے ہی شک کا فائدہ دیا جا چکا ہے۔ تاہم اِس گھناؤنے منصوبے ڈیجیٹل دہشت گردی کے اصل منصوبہ سازوں کو اب اپنے جرائم کا حساب دینا پڑے گا خصوصاً جب اُن کے ملوث ہونے کے واضح ثبوت موجود ہیں سازشی عناصر کو غیر ملکی مددگاروں کی پشت پناہی حاصل ہے جن کا مقصد پاکستان کے عوام میں جھوٹ، جعلی خبریں پھیلانا اور پروپیگنڈا کرنا ہے ریاستی اداروں کے خلاف سیاسی مقاصد اور مذموم ڈیجیٹل دہشت گردی کا واضح مقصد پاکستانی قوم میں مایوسی پھیلانا، قومی اداروں خصوصاً مسلح افواج کے درمیان تفرقہ پھیلانا ہے۔ قوم ان کے برے اور مذموم عزائم سے پوری طرح باخبر ہے اور ان ’ناپاک قوتوں‘ کے عزائم کو ضرور شکست دی جائے گی۔ رواں کے سال کے ابتدائی چھ ماہ کے دوران پاک فوج نے دہشت گردوں کے خلاف 22714آپریشن کئے جس میں فوج کے 111جوان اور افسر شہید ہوئے جبکہ 354 دہشت گردجہنم واصل ہوئے ۔ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں دہشت گردی کے 1063واقعات ہوئے پاک فوج ہر روز 126آپریشن کررہی ہے، ہر گھنٹے میں پانچ آپریشن میں پاک فوج دہشت گردوں کے خلاف لڑتی ہے ،روزانہ 126اور ہر گھنٹے میں5آپریشنز اورشہادتوں کے باوجود دہشتگردی کے واقعات کا مطلب ہے کہ ان کی مالی معاونت ہورہی ہے انھیں وسائل فراہم کئے جارہے ہیں تاکہ ملک میں جاری دہشتگردی ختم نہ ہو۔

واضح رہے کہ 22 جون کو وزیراعظم محمد شہباز شریف کی زیر صدارت نیشنل ایکشن پلان کی ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں آرمی چیف جنرل عاصم منیر بھی شریک تھے۔ اجلاس میں عسکریت پسندی کے انسداد کے لیے آپریشن ’عزم استحکام‘ کی منظوری دی تھی ۔ عزم استحکام کا مقصد پہلے سے جاری انٹیلی جنس کی بنیاد پر مسلح آپریشن کو مزید متحرک کرنا ہے، اسکا مقصد دہشت گردوں کی باقیات کی ناپاک موجودگی، جرائم و دہشت گرد گٹھ جوڑ کی وجہ سے ان کی سہولت کاری اور پرتشدد انتہا پسندی کو فیصلہ کن طور پر جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ہے۔ پاکستان علماء کونسل نے محرم الحرام میں امن و امان کے قیام، بین المسالک و بین المذاہب ہم آہنگی و رواداری کیلئے انتہا پسندی، دہشت گردی اور شدت پسندی کے خاتمے کیلئے تمام مکاتب فکر اور مذاہب کی مشاورت سے پیغام پاکستان ضابطہ اخلاق جاری کیا ہے۔ پیغام پاکستان ضابطہ اخلاق سے تصادم کا راستہ مفاہمت کے ذریعے روکا جا سکتا ہے۔ ہر عزادار و ماتم دار کو چاہئے کہ مفہوم عزاداری کو سمجھ کر شعورِ حضرت امام حسین علیہ السلام کے ساتھ اس اہم ترین عبادت کو اسکے تمام احکام و آداب کا خاص خیال رکھتے ہوئے انجام دے تاکہ ہماری یہ عبادت، یہ مجلس ، یہ گریہ و ماتم خدا کی بارگاہ میں مقبول واقع ہو اور یہی عمل دنیا و آخرت میں ہماری نجات کا سبب بنے۔علماء کرام، زاکرین کواس کے ساتھ ساتھ ملکی قوانین پرعمل کرنا چاہیے۔ رپورٹ کے مطابق محرم الحرام میں امن و امان برقرار رکھنے کے لیے پنجاب میں فوج اور رینجرزطلب کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، ترجمان محکمہ داخلہ کا کہنا ہے کہ فوج اور رینجرز کی 150 کمپنیوں کی خدمات طلب کی گئی ہیں۔فوج کی 69 اور رینجرز کی 81 کمپنیاں تعینات کرنے کے لیے مراسلہ جاری کردیاگیا، ترجمان محکمہ داخلہ پنجاب نے کہا کہ یکم سے 12 محرم کے دوران خدمات طلب کی گئیں۔ واضح رہے کہ اس سے قبل حکومت پنجاب نے وزارت داخلہ سے 6 سے 11 محرم تک انٹرنیٹ پر سوشل میڈیا ایپس کو بند کرنے کی درخواست کی تھی تاکہ فرقہ وارانہ تشدد سے بچنے کے لیے نفرت انگیز مواد اور غلط معلومات کے پھیلاؤ کو کنٹرول کیا جا سکے۔ یہ اطلاعات ملنے کے بعد کہ ’بیرونی طاقتیں‘، بشمول سرحد پار عناصر، نفرت انگیز مواد اور میمز شیئر کرنے میں ملوث ہیں، حکومت نے عاشورہ کے موقع پر انٹرنیٹ کی معطلی اور موبائل جام کرنے کے معمول کے اقدامات سے آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ کابینہ کی قائمہ کمیٹی برائے لا اینڈ آرڈر اور محکمہ داخلہ پنجاب کی رائے ہے کہ انٹرنیٹ بند کرنے سے عام لوگوں کے لیے مشکلات پیدا ہوتی ہیں جبکہ زیادہ تر غلط معلومات اور نفرت انگیز مواد سوشل میڈیا ایپس کے ذریعے پھیلایا جاتا ہے، جسے اس وقت بھی استعمال کیا جاسکتا ہے، جب انٹرنیٹ بند ہو۔محکمہ داخلہ نے سیکریٹری داخلہ کو خط لکھ کر درخواست کی کہ سوشل میڈیا پلیٹ ایپس (فیس بک، واٹس ایپ، انسٹا گرام، یوٹیوب، ٹوئٹر، ٹک ٹاک وغیرہ) کو صوبے بھر میں 6 تا 11 محرم تک معطل کیا جائے تاکہ نفرت انگیز مواد، غلط معلومات پر قابو پانے اور فرقہ وارانہ تشدد سے بچا جاسکے۔محرم کے دوران سوشل میڈیا ایپس خاص طور پر فیس بک اور ایکس پر نفرت انگیز مواد کئی گنا بڑھ جاتا ہے جو کہ آخر کار دو فرقوں کے درمیان تنازع کی وجہ بن جاتا ہے۔

ملک بھر بالخصوص پنجاب میں محرم الحرام میں محکمہ داخلہ نے قانون نافذ کرنے والے اداروں سے موبائل فون سروس جام کرنے کی سفارشات مانگ لی ہیں۔ نو اور دس محرم الحرام کو پنجاب بھر میں دفعہ 144 نافذ کردی جائے گی۔ پنجاب بھر کے حساس مقامات پر ایلیٹ فورس اور رینجرز تعینات کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔ پنجاب پولیس نے یوم عاشور پر سکیورٹی بیک اپ کے لیے نے پاک فوج اور پنجاب رینجرز کی خدمات حاصل کرنے کی بھی سفارش کی ہے پنجاب حکومت نے اس بار امن کو سبوتاژ کرنے کی سرگرمیوں کو روکنے کے لیے ایک آؤٹ آف دی باکس فیصلہ لیا ہے، توقع ہے کہ وزارت داخلہ فوری ردعمل دے گا تاکہ محرم کے دوران امن کو یقینی بنایا جا سکے۔ پنجاب حکومت نے ابتدائی طور پر 9 اور 10 محرم کو سوشل میڈیا ایپس کو بند کرنے پر غور کیا، تاہم اس سے کہیں زیادہ عوامل ہیں کیونکہ نفرت انگیز مواد اور میمز کو سرحد پار سے شیئر کرنے کے ساتھ ساتھ فنڈنگ ​​کی اطلاعات ہیں، موجودہ حالات میں انٹرنیٹ اور موبائل جیمنگ کی معمولی معطلی کام نہیں کر سکتی۔قائمہ کمیٹی برائے لا اینڈ آرڈر نے تسلیم کیا کہ کابینہ کمیٹی نے نفرت انگیز مواد کو پھیلانے سے بچنے کے لیے سوشل میڈیا ایپس کو بند کرنے کی تجویز پیش کی۔ضروری ہےکہ ڈیجیٹل دہشت گردی سے نوجوانوں کی حفاظت کریں اور انٹرنیٹ , سوشل میڈیا پرڈیجیٹل دہشت گردی کے پھیلاؤ پر خاص توجہ دی جائے, اقوام متحدہ انسداد دہشت گردی کمیٹی کا قیام 11 ستمبر 2001 کو امریکہ میں ہونے والے دہشت گرد حملوں کے بعد 28 ستمبر 2001 کو متفقہ طور پر عمل میں آیا تھا اور سلامتی کونسل کے تمام 15 ارکان اس کا حصہ ہیں۔انسداد دہشت گردی کمیٹی کو ایسے اقدامات کی نگرانی اور ان پر عملدرآمد کی ذمہ داری سونپی گئی ہے جن سے دنیا بھر کے ممالک کی انسداد دہشت گردی سے متعلق قانونی اور ادارہ جاتی صلاحیتوں میں ہر مقامی و بین الاقوامی سطح پر اضافہ کیا جا سکے۔

ڈیجیٹل دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے تین شعبوں پر خاص توجہ دے رہی ہے جن میں انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا، دہشت گردی کے عالمگیر نیٹ ورکس کو ملنے والی مالی مدد اور ڈرون جیسے بغیر پائلٹ فضائی نظام کا پھیلاؤ شامل ہیں۔نئی ٹیکنالوجی تیزی سے ترقی پا رہی ہے اور دنیا بھر کے ممالک داخلی سلامتی اور انسداد دہشت گردی کے مقاصد کے لیے اسے پہلے سے بڑھ کر باقاعدگی سے استعمال کر رہے ہیں۔ لیکن جدید ٹیکنالوجی پر مبنی سافٹ ویئر اور ہارڈ ویئر کو دہشت گرد گروہ بھی اپنے غیرقانونی مقاصد کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی انسداد دہشت گردی کمیٹی نے29 اکتوبر 2022کوایک عہدنامہ دستاویز کی منظوری دی تھی جس میں رکن ممالک نے عہد کیا تھا کہ رکن ممالک دہشت گردی کی ڈیجیٹل صورتوں کی روک تھام اور ان کا مقابلہ کرنے کے اقدامات اٹھائیں گے۔ نئی اور ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجی کا دہشت گردی کے لیے استعمال روکنے کے لیے عہد رکن ممالک کے نمائندوں، اقوام متحدہ کے حکام، سول سوسائٹی کے اداروں، نجی شعبے اور محققین نےگفت و شنید کے کے بعد کیا تھا اس عہد کا مقصد ڈرون، سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم اور اجتماعی چندے کے غلط استعمال سے متعلق اہم نوعیت کے خدشات کا احاطہ کرنا اور ایسے رہنما اصول ترتیب دینا ہے جن سے اس بڑھتے ہوئے ڈیجیٹل دہشت گردی مسئلے پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔ اس عہد میں مستقبل کے لائحہ عمل کی بنیاد میں انسانی حقوق، سرکاری و نجی شراکت، سول سوسائٹی کی شمولیت اور اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے اکٹھے کام کرنے کے طریقوں پر بات کی گئی ہے۔ اس میں سی ٹی ای ڈی رہنما اصولوں کا ایک مجموعہ تیار کرنے کے لیے بھی کہا گیا تھا جو تمام شراکت داروں کی گہری سوچ بچار کا نتیجہ ہے اس عہدنامہ دستاویز میں انسداد دہشت گردی کے اقدامات کرتے وقت انسانی حقوق کا احترام یقینی بنانے پر خاص زور دیا گیا ہے ۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے واضح کیا ہے کہ ”ڈیجیٹل کُرے میں ہر انسانی حق کے تحفظ کا عہد کرتے ہوئے ان کمزوریوں کو کم کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات کیے جائیں جو مطلوبہ نتائج کے حصول میں رکاوٹ بن سکتی ہیں۔ ایک پیغام میں سیکرٹری جنرل کا کہنا تھا کہ انسانی حقوق موثر کثیرفریقی کوششوں اور بین الاقوامی تعاون کے ذریعے ہی حاصل ہو سکتے ہیں اور اس مقصد کے لیے ایسے اقدامات کیے جانا چاہئیں جن کی بنیاد اقوام متحدہ کے چارٹر اور انسانی حقوق کے عالمگیر اعلامیے میں بیان کردہ اقدار اور ذمہ داریوں پر ہیں۔

انسداد دہشت گردی کے اقدامات کرتے ہوئے حقوق کا احترام معاشرے کے تحفظ کے لیے پائیدار اور موثر کوششیں یقینی بنانے میں بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ اگر ایسے طریقہ ہائے کار سے کام لیا جائے جو ان اہم حدود سے تجاوز کرتے ہوں تو اس طرح نہ صرف قانون کی خلاف ورزی ہوتی ہے بلکہ انسداد دہشت گردی کی کوششیں بھی اعتماد، نیٹ ورکس اور معاشروں کو ہونے والے نقصان سے کمزور پڑ جاتی ہیں جو کہ دہشت گردی کی کامیابی سے روک تھام اور اس کے خلاف اقدامات کے لیے لازمی اہمیت رکھتے ہیں۔بین الاقوامی قانون اور انسانی حقوق میں اس مسئلے کے بہت سے حل موجود ہیں اور رکن ممالک کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے لوگوں کی سلامتی کا تحفظ کریں اور یقینی بنائیں کہ ان کے طرز عمل سے کسی فرد کے حقوق پامال نہ ہوں۔ ریاست کو چاہیے کہ وہ سوشل میڈیا پر مواد کی تطہیر اور اس پر پابندی عائد کرتے وقت محتاط رہیں کیونکہ اس سے اقلیتیں اور صحافی غیرمتناسب انداز میں متاثر ہو سکتے ہیں۔ڈیجیٹل دہشت گردی پر قابو پانے کے لیے عائد کی جانے والی پابندیوں کی بنیاد قطعی اور بالاحتیاط بنائے گئے قوانین پر ہونی چاہیے اور اس میں جائز اظہار کو سنسر کرنے کی ترغیب نہیں دی جانی چاہیے۔ اس مقصد کے لیے شفاف طریقہ ہائے کار، حقیقتاً آزاد اور غیرجانبدار نگران ادارے ہونے چاہئیں اور سول سوسائٹی اور ماہرین کو ان ضوابط کی تیاری، انہیں بہتر بنانے اور ان پر عملدرآمد کے عمل میں شامل کیا جانا چاہیے۔ڈیجیٹل دہشت گردی سے لاحق نئے مسائل کا سامنا کرنے والے ممالک کو اس مسئلے پر قابو پانے کے لیے درکار تبدیلیاں ممکن بنانے کے لیے عالمی پالیسی ساز برادری کو مستعد، دوررس اور تعاون پر مبنی طرزعمل اختیار کرنا ہو گا۔عہدنامہ میں رکن مماک نے اتفاق کیا ہے کہ رہنما اصولوں اور عملدرآمدی اقدامات کی بنیاد بین الاقوامی قانون اور انسانی حقوق پر ہونی چاہیے۔

اطلاعاتی اور مواصلاتی ٹیکنالوجی، جیسا کہ رقم کی ادائیگی سے متعلق ٹیکنالوجی اور مالی وسائل جمع کرنے کے طریقوں اور انسانوں کے بغیر چلائے جانے والے فضائی نظام (یو اے ایس یا ڈرون) کا دہشت گردوں کے ہاتھوں غلط استعمال روکنے کے لیے تجاویز تیار کریں ۔ رکن ممالک کو انسانی حقوق اور بنیادی آزادیاں قائم رکھتے ہوئے ٹیکنالوجی کا دہشت گردانہ مقاصد کے لیے استعمال روکنے سے متعلق سلامتی کونسل کی تمام متعلقہ قراردادوں پر عملدرآمد میں مدد دے گی۔ رکن ممالک کو ڈیجیٹل دہشت گردی کا مقابلہ کرنے میں مدد دینے کے لیے غیرپابند رہنما اصولوں کا نیا مجموعہ جاری کیا جائے اس کے ساتھ خطرات سے نمٹنے کے لیے اسی طرح کی ٹیکنالوجی کے ذریعے پیش کردہ مواقع سے متعلق بہتر طریقہ ہائے کار کا مجموعہ بھی شامل ہوجدید ٹیکنالوجی سے باخبر دہشت گرد اجتماعی چندے، تجارت،جدید ٹیکنالوجی پر مبنی سافٹ ویئر اور ہارڈ ویئر کو دہشت گرد غیرقانونی مقاصد کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔ سوشل میڈیا کے ذریعے عطیات کی درخواستوں اور دیگر طریقوں سے مالی وسائل جمع کرنے کے لیے ٹیکنالوجی کے شعبے ہونے والی اختراعات سے کیسے کام لے رہے ہیں۔ دہشت گرد ٹیکنالوجی سے کام لے رہے ہیں ان کے بیانیے اور ان کی جانب سے ٹیکنالوجی کے استعمال کے خلاف اقدامات کیے جائیں۔ توقع ہے کہ خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے پیش ہائے رفت اور تحقیق بارے تازہ ترین اطلاعات اور بہترین طریقہ ہائے کار کا تبادلہ کریں گے جو انسانی حقوق سے متعلق بین الاقوامی قانون سے مطابقت رکھتے ہوں۔

مزید خبریں

FOLLOW US

Copyright © 2024 Roshan Pakistan News