هفته,  19 اپریل 2025ء
دہشت گردی کے خلاف جنگ مشترکہ فرض قرار

حکومت نے نیشنل ایکشن پلان پر نظرثانی شروع کر دی ہےیاد رکھیں کہ پشاور میں آرمی پبلک سکول پر مہلک دہشت گرد حملے کے بعد نیشنل کاؤنٹر ٹیررازم اتھارٹی نےمشاورت سے انسداد دہشت گردی اور انتہاپسندی کے لیے 20 نکاتی نیشنل ایکشن پلان تیار کیا تھا، جس کی بعد ازاں پارلیمنٹ نے 24 دسمبر، 2014 کو اس کی منظوری دی تھی۔وزیراعظم شہباز شریف کا نیشنل ایکشن پلان کی اپیکس کمیٹی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہنا ہے کہ ہم سب کو مل کر دہشت گردی کو کچلنا ہے۔ قومی سلامتی کا مسئلہ کافی عرصے سے نظرانداز ہوتا رہا ہے، پاکستان کو مختلف حوالوں سے دہشت گردی کاسامنارہا، پائیدار ترقی کے لیے ملک میں آئین و قانون پر عملداری ضروری ہے۔ نیشنل ایکشن پلان کی اپیکس کمیٹی کا اجلاس وزیراعظم ہاؤس میں ہوا.

اجلاس میں پاکستان میں چینی باشندوں اور غیر ملکیوں کی سیکیورٹی کے امور کا جائزہ لیا گیا۔ اجلاس میں تمام وزراء اعلی، گورنرز، چیف سیکریٹریز اور وزراء داخلہ شریک ہیں، اجلاس میں آرمی چیف جنرل عاصم منیر سمیت وفاقی وزرا بھی موجودہ تھے۔.وزیراعظم نے کہا کہ انتہاپسندی اور مذہبی منافرت کا بھی دہشت گردی سے جان لیوا تعلق ہے، دہشت گردی کے خلاف جنگ تمام ریاستی اداروں کامشترکہ فرض ہے۔ جرائم، منشیات اور اسمگلنگ کا دہشت گردی سے جان لیوا تعلق ہے،گزشتہ برسوں میں حکومتیں دہشت گردی کےحوالے سے بری الذمہ رہیں، گزشتہ ڈھائی دہائیوں سے دہشت گردی کے مسئلے نے سر اٹھایا، انسداد دہشت گردی کے لیے اداروں کو اپنا کردار ادا کرنا پڑےگا، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مسلح افواج کی قربانیاں بےمثال ہیں، سیکیورٹی کو ریاست کے صرف ایک ادارے پر چھوڑنا خطرناک روش ہے۔ شہباز شریف نے کہا کہ ہم سب نے ملکر دہشت گردی کو کچلنا ہے، گزشتہ برسوں میں حکومتیں دہشت گردی کےحوالے سے بری الذمہ رہیں، ہم نے ہر معاملہ مسلح افواج پر چھوڑ دیا جو خطرناک روش ہے، افواج پاکستان نے ملکی حفاظت کے لیے ہمیشہ قربانیاں دیں، انسداد دہشت گردی کے لیے اداروں کو اپنا کردار ادا کرنا پڑےگا۔

توقع ہے کہ صوبے دہشت گردی سے نمٹنے کیلئے اپنا حصہ ڈالیں گے، نرم ریاست سرمایہ کاروں کا اعتماد حاصل نہیں کرسکتی۔ وزیراعظم شہباز شریف نے خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کی اپیکس کمیٹی کا ہونے والا اجلاس مؤخر کردیا تھا، اور قومی ایکشن پلان کی اپیکس کمیٹی کا اہم اجلاس طلب کیا تھا، فاٹا میں قانون کی عملداری نہ ہو نے کی وجہ سے یہ علاقے دہشت گردوں اور انڈر ورلڈ مافیا کا گڑھ بن گئےاور پورا ملک خصوصاً خیبر پختونخوا خون میں نہلا گیا تھا انگریزسرکار نے اپنے نوآبادیاتی مفادات کے حصول کے لیے ان علاقوں کو بے آئین رکھا ,ادارہ جاتی سسٹم کے بجائے پورا فاٹا اور پاٹا انگریز کے وظیفہ خوار خوانین و مشران و ملکان کے حوالے کردیا، ان علاقوں کو خیبر پختونخوا کا حصہ بنانے کے بعد یہاں پر امن و امان کی طرف توجہ دی جائے اور یہاں کے عوام کو انسانی حقوق اور انصاف تک رسائی دی جائے بلکہ ان علاقوں میں دہشت گردی زیادہ ہوگئی ہے بلکہ افغانستان میں طالبان کی حکومت کے بعد ٹی ٹی پی زیادہ متحرک ہو گئی ہے۔ آپریشن سے بڑی کامیابیاں حاصل کیں لیکن اب طالبان اپنے ملک اور قوم کے خلاف سرگرم ہیں۔ انٹر نیٹ اور سوشل میڈیا کے ذریعے دہشت گردی کے خلاف ٹھوس مہم کب چلے گی .

دہشت گرد سوشل میڈیا پر سرگرم ہیں,نیشنل ایکشن پلان 20نکات پر مشتمل تھا ۔ ۔دہشت گردی کے جرائم میں سزا یافتہ مجرمان کی سزائے موت پر عمل درآمد, خصوصی فوجی عدالتوں کا قیام ,ان عدالتوں کا قیام عمل میں لایا گیا کچھ افراد کو سزائے موت بھی سنائی گئی ۔اب یہ عدالتیں ختم ہوچکی ہیں۔ پاکستان کا نظام فوجداری دہشت گردوں کو سزا دینے میں بری طرح ناکام ہوچکا ہے یہ ایک حقیقت ہے کہ دہشت گردی ایک نیا طریقہ واردات ہے اور ہمارا پرانا ‘رشوت زدہ اور بوسیدہ عدالتی نظام اور پراسیکیوشن برانچ دونوں ہی اس مسئلے کو ختم کرنے مجرموں کو سزا دینے یا ان کی نشاندہی کرنے میں ناکام رہے ہیں ہمارا نظام انصاف تو عام رہزن کو بھی سزا نہیں دے سکتا تربیت یافتہ دہشت گرد اور ان کے طاقتور سہولت کاروں کو سزا دینا تو بڑی بات ہے اس لئےکہہ سکتے ہیں کہ نظام انصاف کی بہتری کے لئے کچھ نہیں ہو ا ۔ جزا کے ساتھ ساتھ سزا کاعنصر شامل کرکے نظام انصاف اور تفتیش و تحقیقات کا نظام بہتر بنایا جاسکتا ہے۔ نیشنل ایکشن پلان کا مقصد ان گروہوں اور تنظیموں کو ختم کرنا تھا جو انتہا پسندی ‘دہشت گردی اور فرقہ واریت میں ملوث ہیں لیکن کئی پارٹیوں اور تنظموں کی قیادت آج بھی کھلم کھل مذہنی فرقہ وارایت، مذہبی انتہاپسندی کا پرچار کر رہی ہیں قوم پرستی کی آڑ میں بھی نفرت ، دشمنی اورمار دو مر جاؤ کی آگ بغیر کسی خوف کے جلائی جارہی ہے اس لئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس نکتے پر آگے جانے کی بجائے ہم پیچھے جا رہے ہیں کیا ایسی تنظیمیں اور ان کی لیڈرشپ کھلے عام پاکستان کے تعلقات ختم کرنے کا فریضہ سرانجام دینے کے محاذ پر سرگرم نہیں۔افغان طالبان اور ٹی پی پی کی درپردہ سہولت کاری کہاں سے ہورہی ہے ، یہ سوال بھی ذہن میں اٹھتا ہے کہ ماضی میں ہم تمام دہشت گردوں کے بجائے مخصوص دہشت گردوں کو نشانہ تو نہیں بناتے رہے؟نیکٹا, نیشنل کائونٹر ٹیررزم اتھارٹی کو مضبوط اور فعال بنایا جانا بہت اہم نقطہ ہے ۔

دہشت گردی کے خلاف سب سے اہم ادارہ نیکٹا کو مختلف انٹلی جنس اور سیکیورٹی ایجنسیوں کے درمیان ہم آہنگی اور تعاون کا شدید فقدان ہے۔سب سے اہم ادارہ نیکٹا کو فعال ہونا تھا نیکٹا کا ایک طاقتور اور با اختیار بورڈ آف ڈائرکٹر موجود ہے ‘قانونی پابندی ہے کہ بورڈ کا اجلاس ہر تین مہینے کے بعد ہونا لازمی ہے یعنی سال میں چار مرتبہ ، کیا اس پر عمل ہوا ۔ نیکٹاکے بورڈ آف گورنر کے چیئرمین وزیراعظم ہیں اوراس کے ممبرا ن میں تما م صوبوں بشمول گلگت بلتستان کے وزراء اعلی ‘وزیر اعظم آزادکشمیر ‘ داخلہ‘ قانون ‘ دفاع اورخزانہ کے مرکزی وزراء‘ آئی ایس آئی ‘آئی بی ‘ملٹری انٹلی جنس اورایف آئی اے کے ڈائرکٹر جنرل ‘صوبائی چیف سیکرٹری اور تمام صوبوں کے آئی جی پی ‘سیکرٹری داخلہ اور دوسرے اہم عہدیداران شامل ہیں۔ نیکٹا کے بورڈ کی ساخت اور قانون کے مطابق اس کے اختیارات اس ادارے کو دہشت گردی کے خلاف پالیسیاں بنانے اور ان پر عمل درآمد کا سب سے زیادہ فعال اور طاقتور ادارہ بناتے ہیں بد قسمتی سے یہ ادارہ موجودہ اورسابقہ حکومت کی ترجیحات میں سب سے نچلے درجے پر ہے۔ ملک کے تمام باشعور حلقے اس بات پر متفق ہیں کہ تمام خفیہ ایجنسیوں اور سیکیورٹی کے اداروں کے درمیان ہم آہنگی اور تعاون بڑھانے کے لئے ایک منظم سسٹم کی ضرورت ہے نفرت انگیز مواد انتہا پسندی , فرقہ واریت اور تشددکا پرچار کرنے والے اخبارات, لٹریچر اوررسالوں کے خلاف سخت اقدامات کرنا ضروری ہےدہشت گردوں اور ان کی تنظیموں کے فنڈ کے ذرائع کو بند کرنا ‘ کیا اس پر عمل ہوا ہے ،آج بھی لوگ کھلے عام چندے جمع کر رہے ہیں‘باقاعدہ مسجدوں اور بازاروں میں چندہ بکس لگے ہوئے ہیں۔ جب لوگ انتہاپسند تنظیموں کے قائدین کو کھلے عام اخباروں اور ٹی وی پر اجتماعات کرتے دیکھتے ہیں تو وہ بھی ان کو اصلاحی تنظیمیں سمجھ کر چندہ دے دیتے ہیں‘ قربانی کی کھالیں، زکوۃ، فطرانہ، خیرات و صدقات تک یہ تنظمیں اکٹھا کرتی ہیں۔ ان تنظیموں پر آج تک کوئی پابندی نہیں لگائی گئی ‘اس لئے کہا جاسکتا ہے کہ اس سلسلے میں پراگرس کچھ نہیں بلکہ حالات جوں کے توں ہیں ۔کالعدم تنظیموں کو دوسرے ناموں سے کام کرنے کی اجازت نہیں تنظیم پر پابندی نہیں بلکہ تنظیم کی قیادت،اس کے فنانسرز اور سہولت کاروں پر ہر قسم کی سیاست پر پابندی عائد کی جانی چاہیے۔

اب صورتحال یہ ہے کہ کسی تنظیم پر پابندی لگائی جاتی تو اس کی قیادت نئے نام سے کوئی تنظیم قائم کرکے اپنا کام شروع کردیتی ہے ۔اسی طرح بہت سی تنظیمیں ہیں جو پابندی کے باوجود دوسرے ناموں سے کام کر رہی ہیں حکومت شاید ناموں پر پابندی لگاتی ہے نہ کہ افراد اور پروگرام پرجب کہ یورپ اور اقوام متحدہ نام کے بجائے افراد کے خلاف پابندیاں لگاتی ہےدسمبر 2014میں بنائے گئے نیشنل ایکشن پلان کے بعد قائم کیے گئے نیکٹا کو فعال ہونا تھا لیکن ایسا نہیں ہوا۔ ملک میں انتہا پسندی اوردہشت گردی کی ترویج کے لیے کوئی محفوظ مقام نہیں رہنے دیا جائے گا اس نکتے پر عمل درآمد کے لیے انتہاپسند تنظیموں، ان کے عہدیداروں، فنانسرز اور سہولت کاروں کے خلاف ملک بھر میں کثیر الجہتی آپریشن کی ضرورت ہے۔نیشنل ایکشن پلان کا یہ بہت اہم نقطہ ہے کہ نیکٹا یعنی نیشنل کاؤنٹر ٹیررازم اتھارٹی کو مضبوط اور فعال بنایا جائے گا ۔ یہ بات درست ہے کیونکہ دہشت گردی کے خلاف سب سے اہم اداروںبشمول نیکٹا اور پولیس کو حکومت کی طرف سے سرد مہری کا سامنا رہا ہے انٹیلی جنس اور سیکیورٹی ایجنسیز کے درمیان ہم آہنگی اور تعاون کا شدید فقدان ہے۔نیکٹاکے بورڈ آف گورنر کے چیئرمین وزیراعظم ہیں جب کہ پاکستان تما م صوبوں بشمول گلگت بلتستان کے وزرائے اعلیٰ ‘وزیر اعظم آزادکشمیر ‘ داخلہ‘ قانون ‘ دفاع اورخزانہ کے وفاقی وزراء‘ آئی ایس آئی ‘آئی بی ‘ ایم آئی اورایف آئی اے کے ڈائریکٹر جنرل ‘ تمام صوبوں کے آئی جی پولیس، چیف سیکریٹری صاحبان‘ سیکریٹری داخلہ اور دوسرے اہم عہدیداران شامل ہیں۔ لیکن اس اتھارٹی کے بورڈآف گورنر ز کا اجلاس باقاعدگی کے ساتھ نہیں ہورہا۔مذہبی انتہا پسندی کا خاتمہ اور اقلیتوں کے تحفظ کی ضمانت دینا لیکن یہاں بھی مایوسی ہے ، انتہاپسندی کے خاتمے کے لیے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں ہوئے ۔دینی مدارس کی رجسٹریشن اور ان کو ریگولر کرنا ، اس حوالے سے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی کارکردگی سب کے سامنے ہے‘ ایک وفاقی اسلامک ایجوکیشن کمیشن بنانے کی باتیں سنی گئی تھیں ‘تاکہ نیشنل ایکشن پلان کے تحت دینی مدارس کی منیجمنٹ سسٹم اور سلیبس کو منظم کیا جاسکے اور دینی مدارس کے طلباء کو پڑھانے کے لیے اعلیٰ تعلیم یافتہ اساتذہ کی بھرتی کی جائے ‘یہ ادارہ ان مدارس کی ڈگریوں اور سرٹیفیکیٹس کی تصدیق بھی کرے گا‘ مالی مدد بھی کرے گا.

میڈیا میں دہشت گردوں اور دہشت گرد تنظیموں کو گلوریفائی،کرنا اور ان کو ہیرو بناکر پیش کرنا کو بند کرنا‘ابھی تک اس سلسلے میں کوئی ٹھوس کام ہوتا نظر نہیں آیا ‘ آج بھی متعدد اینکرز، صحافی اور یوٹیوبرز دھڑلے سے سرگرم ہیں, بلوچستان کوخصوصی توجہ کی ضرورت ہے کیونکہ وہاں صرف مذہبی نہیں بلکہ قوم پرستی کے نام پر بھی دہشت گردی ہو رہی ہے‘ بلوچستان میں سماجی تبدیلیاں لانے کے لیے اقدامات کے ساتھ انتظامی نیٹ ورک کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ فرقہ واریت پھیلانے والے عناصر کے خلاف اقدامات کے محاذ پر اب بھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ ہمارے بھائی کہلانے والے ملکوں کی باہمی آویزش پاکستان میں بھی پراکسی کی صورت میں آنے کا خدشہ ہے افغان مہاجرین کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے ایک پالیسی کی تشکیل کرنا ۔اس سلسلے میں تمام افغان مہاجرین کو واپس بھیجنے کا حتمی پروگرام بنایا جائے ضروری ہے کہ اس مسئلے پر وفاق اور صوبوں کی پالیسی یکساں ہو اب تو افغانستان میں ایک مستحکم حکومت بھی قائم ہو گئی ہے لہٰذا افغان باشندوں کا پاکستان میں رہنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ موجودہ فوجداری قوانین اور عدالتی نظام تو عام مجرموں کو سزا دینے کے قابل نہیں قانون میں اصلاحات اور عدالتی نظام میں بہتری لانا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے خاص طور ایسی پولیس اور پراسیکیوشن کی تشکیل جو خاص طور پر دہشت گردی کے مجرموں کو قرار واقعی سزا دلوا سکے۔ دہشت گردی سے مقابلے کے لیے ہمارے پاس وقت کم اور مقابلہ سخت ہے۔ ملک کے ہر شعبے کوانتہا پسندی نے متاثر کیا ہے نیشنل ایکشن پلان کے نکات میں ہر نکتہ اپنی جگہ اہم اور سنجیدہ توجہ کا مستحق ہے اس کے لیے ضروری ہے کہ ایجنڈے کے ہر پوائنٹ پر کام کرنے کے لیے الگ الگ ماہرین کے گروپ یا تھنک ٹینک بنائے جائیں اور ان کو ایک متعین مدت میں ٹھوس سفارشات اور لائحہ عمل تیار کرنے کا کہا جائے۔ .قومی اسمبلی کےاجلاس میں ’دہشت گردی‘ کے واقعات میں اضافے سے متعلق توجہ دلاؤ نوٹس پر جواب دیتے ہوئے وزیر اطلاعات و نشریات عطا تارڑ نےکا کہنا ہے کہ گذشتہ حکومت نے دہشت گردوں کے ساتھ مذاکرات کو ترجیح دی۔ انہوں نے کہا کہ ہم دہشت گردوں کے ساتھ مذاکرات کرنا چاہتے ہیں لیکن پھر نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد کو روکا گیا۔ پاکستان میں گذشتہ کچھ عرصے کے دوران ایک مرتبہ پھر ’دہشت گردی‘ کے واقعات میں اضافہ دیکھا گیا ہے جن میں سے بعض حملوں میں غیرملکیوں کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے۔

اس حوالے سے قومی اسمبلی میں بات کرتے ہوئے عطا تارڑ نے کہا کہ ’اتحادی افواج کے انخلا کے بعد دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوا لیکن دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے حکومت سرگرم ہے۔ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطا تارڑ کی تقریر کے دوران پاکستان تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد اراکین اسمبلی احتجاج کرتے رہے۔ وزیر اطلاعات نے کہا کہ ’نیشنل ایکشن پلان پر نظرثانی کی جا رہی ہے جبکہ صوبہ خیبر پختونخوا کاؤنٹر ٹیررازم ڈپارٹمنٹ کی صلاحیت بڑھائی جا رہی ہے نیشنل کاؤنٹر وائلنٹ ٹیررازم پالیسی بھی تیار کی گئی ہے۔ یاد رکھیں کہ دہشت گردی اور امن و آمان کی مخدوش صورتحال کے خلاف سیکورٹی فورسز کی جانب سے بہترین کارروائیاں کی گئیں، اس حوالے سےسال 2023ء میں ملک بھر میں 18736 انٹیلی جنس آپریشنز میں 566 دہشت گرد مارے گئے اور 5161 کو گرفتار کیا گیا، فوج کے 260 افسران اور جوانوں سمیت ایک ہزار سے زائد افراد نے جانوں کا نذرانہ پیش کیا، سب سے زیادہ دہشت گرد 447 خیبرپختونخوا میں مارے گئے۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ سال 2023ء میں خطے میں بدامنی کی صورتحال کے پیش نظر ملکی دفاع، سلامتی اور دہشت گردی کے خلاف مؤثر اقدامات کیے گئے، حالیہ دہشت گردی کے واقعات کے تانے بانے اور شواہد افغانستان میں موجود دہشت گردوں کی پناہ گاہوں تک جاتے ہیں۔ سال 2023 میں سیکیورٹی فورسز کی جانب سے ملک بھر میں 18736 انٹیلی جنس بیسڈ آپریشنز کیے گئے، انٹیلی جنس بیسڈ آپریشنز کے نتیجے میں 566 دہشت گرد مارے گئے جبکہ 5161 دہشت گردوں کو گرفتار کیا گیا۔ سیکیورٹی فورسز نے بروقت کارروائی کرتے ہوئے متعدد انتہائی مطلوب دہشت گردوں کو بھی جہنم واصل کیا۔ چاروں صوبوں کے اعداد و شمار کے مطابق بلوچستان میں 15063 انٹیلی جنس بیسڈ آپریشنز کیے گئے اور 109 دہشت گردوں کو جہنم واصل کر دیا گیا، خیبرپختونخوا میں 1942 انٹیلی جنس بیسڈ آپریشنز کیے گئے جبکہ 447 دہشت گردوں کو جہنم واصل کیا گیا۔ اسی طرح پنجاب میں 190، گلگت بلتستان میں 14 اور سندھ میں 1987 انٹیلی جنس بیسڈ آپریشنز کیے گئے جبکہ 10 دہشت گردوں کو سندھ میں جہنم واصل کیا گیا۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں افواج پاکستان، دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں اور عوام نے بے لوث قربانیاں دیں، دہشت گرد حملوں میںپاک فوج کے 260 سے زائد افسران اور جوانوں سمیت تقریباً ایک ہزار سے زائد افراد نے وطنِ عزیز کی خاطر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ رپورٹ کے مطابق افواج پاکستان اور عوام نے دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں بے شمار قربانیاں دی ہیں، افواج پاکستان نے ملک کو امن کا گہوارہ بنانے کے لیے بے شمار اقدامات کیے، جس سے یہ امید روشن ہے کہ آنے والا وقت امن اور استحکام کا ہوگا۔

مزید خبریں