اسلام آباد(اصغر علی مبارک ) پاک بھارت وزرائے اعظم کا سوشل میڈیا پرحالیہ رابطہ سے کیا دونوں ملکوں کے درمیان برف پگھل رہی ہے؟ واضح رہے کہ وزیراعظم پاکستان شہباز شریف کی جانب سے مبارک باد کے پیغام پر بھارتی وزیراعظم نے جوابی پیغام میں شہباز شریف کا شکریہ ادا کیا ہے۔ خیال رہےکہ شہباز شریف نےمودی کو تیسری باروزیراعظم کےعہدے کا حلف اٹھانے پر سوشل میڈیا پر مبارک باد دی تھی۔
جواب میں نریندر مودی نے سوشل میڈیا پر پیغام میں کہا کہ ‘شہباز شریف آپ کی نیک تمناؤں کے لیے شکریہ’۔ نریندر مودی نے تیسری مدت کے لیے بھارت کی وزارتِ عظمیٰ کا حلف گزشتہ روز اٹھایا۔ جس کے بعد پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف نے انہیں مبارکباد پیش کی ہے، شہباز شریف نے ایکس (سابق ٹوئٹر) پر نریندر مودی کو مینشن کرتے ہوئے ان کے نام پیغام لکھا کہ ‘ نریندر مودی کو تیسری بار بطور وزیر اعظم حلف اٹھانے پر مبارکباد پیش کرتا ہوں’۔ دوسری طرف صدرمسلم لیگ ن نوازشریف نے نریندرمودی کوتیسری باربھارت کاوزیراعظم منتخب ہونےپرمبارکباددی۔ صدرمسلم لیگ ن نوازشریف کا کہنا تھا کہ نریندر مودی کو تیسری مرتبہ بھارت کا وزیراعظم منتخب ہونے پر مبارکباد دیتےہیں،بی جے پی کی حالیہ انتخابات میں کامیابی عوام کے نریندر مودی کی قیادت پر اعتماد کی عکاس ہے، آئیے ہم نفرت کو امید سے بدل دیں۔نوازشریف کا مزید کہنا تھا کہ آئیے ہم جنوبی ایشیا کے دو ارب لوگوں کی قسمت بدلنے کے لیے موقع کا درست استعمال کریں ۔
پاک بھارت تعلقات کا موجودہ منظرنامہ کافی پیچیدہ ہے۔ طویل سفارتی تعطل اب بھی برقرار ہے جبکہ اس میں مزید تلخیاں پیدا ہونے کے باعث اختلافات اور تنازعات میں مزید اضافہ ہوا ہے۔جب سال 2023 کے جی 20 سربراہی اجلاس کے میزبان بھارت نے مقبوضہ کشمیر کے سری نگر میں جی 20 ٹیوریزم ورکنگ گروپ کا اجلاس منعقد کرنے کا اعلان کیا تو اس پر اسلام آباد کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آیا۔ وزارت خارجہ کے ایک بیان نے اس اقدام کی مذمت کرتے ہوئے اسے ’غیر ذمہ دارانہ‘ قرار دیا اور اسے بھارت کی جانب سے ’اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کو نظرانداز کرتے ہوئے جموں و کشمیر پر اپنے غیرقانونی قبضے کو برقرار رکھنے‘ کے طور پر بیان کیا۔ وزارتِ خارجہ نے دہلی کی جانب سے لیہہ اور سری نگر میں مشاورتی یوتھ افیئرز فورم (Y20) کے 2 دیگر اجلاس کے شیڈول پر بھی اعتراض کیا۔ کُل جماعتی حریت کانفرنس نے مسلم ممالک اور چین پر زور دیا ہے کہ وہ متنازعہ خطے میں منعقد ہونے والے اجلاسوں میں شرکت سے اجتناب کریں۔اگست 2019ء میں مقبوضہ کشمیر کے بھارت میں غیرقانونی الحاق کے بعد ان اجلاسوں کے ذریعے بھارت دنیا کو یہ تاثر دینا چاہتا ہے کہ جموں و کشمیر میں حالات معمول پر ہیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو پاکستان کا ردِعمل متوقع تھا۔
بھارت کی جانب سے لگائی گئی پابندیوں، فوجی محاصرے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں نے مقبوضہ وادی کی صورتحال کو مزید سنگین بنادیا ہے۔ کشمیری مسلمانوں کو بےاختیار کرنے کے لیے دہلی گزشتہ 3 سالوں میں متعدد قانونی، آبادیاتی اور انتخابی تبدیلیاں بھی لےکرآچکا ہے۔ پاکستان کے احتجاج نے بھی بی جے پی حکومت کو ایسے اقدام اٹھانے سے نہیں روکا۔دونوں ہمسایوں کے درمیان بات چیت اور قیام امن کا عمل تو بھارت کے اگست 2019ء کے غیرقانونی اقدام سے بہت پہلے ہی معطل ہوچکا تھا۔ لیکن اگست 2019ء کے بعد تعلقات تاریخ کی نچلی ترین سطح پر چلے گئے۔ پاکستان نے تجارت معطل، اپنے ہائی کمشنر کو واپس بلاکر اور سفارتی تعلقات محدود کرکے، دہلی کے اس غیر قانونی اقدام کا جواب دیا۔ تاہم دونوں ممالک کے درمیان ہونے والے پسِ پردہ مذاکرات کے باعث 2021ء میں دونوں فریقوں کی طرف سے 2003ء میں کی جانے والی مفاہمت کے مطابق لائن آف کنٹرول پر جنگ بندی کرنے کے عزم کا اظہار کیا گیا۔ فروری 2019ء میں بالاکوٹ کشیدگی کے بعد دونوں ممالک خوفناک تصادم کے دہانے پر آگئے تھے۔پسِ پردہ مذاکرات کے بعد جنگ بندی قائم رہی۔ لیکن یہ توقع کہ اس سے دونوں ممالک میں بات چیت کی راہ ہموار ہوگی، پوری نہ ہوسکی۔ دونوں ہمسایوں کی جانب سے سخت بیانات کے تبادلے کے ساتھ ہی سفارتی تعطل برقرار رہے۔
حالیہ پاک-بھارت تعلقات میں نتیجہ خیز پیش رفت 1960ء میں طے پانے والے سندھ طاس معاہدے کی صورت میں ہوئی۔ یہ معاہدہ گزشتہ 6 دہائیوں سے دونوں ممالک کے درمیان جنگوں، تصادم اور تناؤ کو برداشت کرتا رہا ہے۔ لیکن سرحد پار دریاؤں کے اشتراک اور انتظام کو سنبھالنے والے اس معاہدے کے مستقبل پر سوالات کھڑے ہو رہے ہیں۔20 جنوری 2023ء کو بھارت نے انڈس کمیشن کے ذریعے پاکستان کو سندھ طاس معاہدے میں ترمیم کرنے کے اپنے ارادے سے آگاہ کیا۔ اس سے بھارت کی پوزیشن میں سختی اور پاکستان کے معاشی بحران سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی عکاسی ہوتی ہے۔پاکستان، بھارت کی جانب سے دریائے جہلم پر بنائے جانے والے 330 میگاواٹ کے کشن گنگا ہائیڈرو الیکٹرک پروجیکٹ اور مقبوضہ جموں و کشمیر میں دریائے چناب پر 850 میگاواٹ کے رتلے ہائیڈروالیکٹرک پروجیکٹ کی کافی طویل مدت سے مخالفت کرتا رہا ہے۔ہ تنازع کئی دہائیوں سے دوطرفہ مذاکرات اور پرمننٹ انڈس کمیشن کے اجلاس میں اٹھایا جارہا ہے۔ 2016ء میں پاکستان نے عالمی بینک سے رجوع کیا جوکہ اس معاہدے کا ثالث اور دستخط کنندہ بھی ہے۔ پاکستان کا مؤقف تھا کہ عالمی بینک اس معاہدے میں شامل شق کے تحت اس تنازع کے حل کے لیے ایڈہاک ثالثی عدالت مقرر کرے۔ 2018ء میں بھارت نے تو کشن گنگا پروجیکٹ مکمل کرلیا لیکن عالمی بینک کو عدالت کو فعال کرنے کے ساتھ ساتھ بھارت کی طرف سے ایک غیرجانب دار ماہر طلب کرنے میں 6 سال کا وقت لگا۔ معاہدے میں موجود تنازعات کو حل کرنے کے ان دونوں طریقوں کی منظوری دی گئی تھی۔
پاک-بھارت تعلقات پر بدستور غیریقینی کے بادل منڈلا رہے ہیں۔ اگرچہ عملی مسائل پر سفارتی مصروفیات وقفے وقفے سے جاری رہتی ہیں لیکن اس کے باوجود دونوں ممالک کے درمیان برف پگھلنے کے امکانات انتہائی کم ہیں۔ امکان یہی ہے کہ دونوں ممالک جنگ کریں گے نہ ان کے درمیان امن قائم ہوگا۔ ترجیحی طور پر یہ ہونا چاہیے کہ تناؤ کو قابو میں کیا جائے اور اسے قابو سے باہر ہونے سے روکا جائے لیکن تناؤ کو کم کرنے کی راہ نکالنے کے لیے فریم ورک کی ضرورت ہے۔ پاکستان اور بھارت کے تعلقات ہمیشہ سے ہی اتار چڑھاؤ کا شکار رہے ہیں۔ کشمیر کے وجہ سے دونوں ملک کے تعلقات اکثر کشیدہ رہتے ہیں بلکہ مسئلہ کشمیر ہی دونوں ممالک کے مابین کشیدہ تعلقات کی بنیادی وجہ ہے۔ مختلف واقعات سے تعلقات پر بہت اثر پڑتا ہے۔ پاکستان اور بھارت بالترتیب چودہ اور پندرہ اگست1947ء کو آزاد ملک کی حیثیت سے دنیا کے نقشے پر نمودار ہوئے۔ دونوں ممالک کو برطانوی ہند کو ہندو مسلم آبادی کی بنیاد پر تقسیم کرنے پر آزاد کیا گیا تھا۔ بھارت جس میں ہندو اکثریتی قوم تھی، ایک سیکولر ریاست قرار پایا۔ جبکہ مسلم اکثریتی پاکستان کو اسلامی جمہوریہ ریاست کا نام دیا گیا۔ آزادی کے وقت سے ہی دونوں ممالک نے ایک دوسرے سے اچھے تعلقات استوار رکھنے کا عزم ظاہرکیا۔ مگر ہندو مسلم فسادات اور علاقائی تنازعات کی وجہ دونوں ممالک میں کبھی اچھے تعلقات دیکھنے کو نہیں ملے۔ آزادی کے وقت سے اب تک دونوں ممالک کے چار بڑی جنگوں جبکہ بہت ہی سرحدی جھڑپوں میں ملوث رہ چکے ہیں۔ پاک بھارت جنگ 1971ء اور جنگ آزادی بنگلہ دیش کے علاوہ تمام جنگوں اور سرحدی کشیدگیوں کامحرک کشمیرکی تحریک آزادی رہی ہے۔دونوں ممالک کے درمیان میں تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے بھی بہت سی کوششیں کی گئیں جن میں آگرا، شملہ اور لاہور کا سربراہی اجلاس شامل ہے۔ 1980ء کی دہائی سے دونوں ممالک کے تعلقات کے درمیان میں تاریخ ساز بگاڑ محسوس کیا گیا ہے۔
اس بگاڑ کا سبب سیاچن کا تنازع، 1989ء میں کشمیر میں بڑھتی کشیدہ صورت حال، 1998ء میں بھارت اور پاکستانی ایٹمی دھماکے اور 1999ء کی کارگل جنگ کو سمجھا جاتا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان میں کشیدہ تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے 2003ء میں جنگ بندی کا معاہدہ اور سرحد پار بس سرورس کا آغاز کیا گیا ہے۔ مگر تعلقات کو بہت بنانے کے لیے تمام کوشش پے در پے رونما ہونے والے دہشت گردی کے واقعات کی نظر ہوتی گئیں۔ جن میں 2001ء بھارتی پارلیمان عمارت پر حملہ، 2007ء میں سمجھوتہ ایکسپریس ٹرین کا دھماکا اور 26 نومبر 2008ء ممبئی میں دہشت گردی کی کاروائیاں شامل ہیں۔ 2001ء میں ہونے والے بھارتی پالیمان پر حملے نے دونوں ممالک کے درمیان میں جنگ کا سا سماں پیدا کر دیا تھا۔ 2007ء میں سمجھوتہ ایکسپریس ٹرین پر حملے سے تقریباً 68 افراد مارے گئے جن مین زیادہ تر کا تعلق پاکستان سے تھا۔ 2008ء کے ممبئی حملے، جن کو پاکستانی دھشت گردوں سے منسوب کیا جاتا ہے، دونوں ممالک کے درمیان میں امن تعلقات کو سبوتاژ کرنے کے لیے اہم ثابت ہوئے۔2013ء بی بی سی کے پاک بھارت تعلقات کے حوالے سے ایک سروے کے مطابق تقریباً 54% پاکستانیوں کی نظر میں بھارت کا رویہ منفی جبکہ 19% کے نزدیک مثبت رہا ہے۔ دوسری جانب 11% بھارتیوں کے نزدیک پاکستان کا رویہ مثبت رہا جبکہ 45% کے نزدیک منفی رویہ دیکھا گیا۔
تقسیم ہند کے ساتھ ہی دونوں ملکوں میں ہنگامے ہو گئے۔ مہاجرین پر حملے بھی ہوئے اور اس میں کروڑوں لوگ مارے گئے۔ اب دونوں ممالک اک دوسرے کی حکومت پر اقلیتوں کے تحفط کے لیے نا مناسب انتظامات کرنے کا الزام لگاتی رہی ہیں۔ برطانوی حکومت نے برطانوی ہند میں موجود تقریباً 680 نوابی ریاستوں کو اختیار دیا کہ وہ جس ملک سے چاہیں اپنا آزادانہ طور پر الحاق کر سکتی ہیں۔ چنانچہ مسلم اکثریتی ریاستوں نے پاکستان جبکہ ہندو اکثریتی ریاستوں نے ہندوستان سے الحاق کرنا مناسب سمجھا۔ البتہ کچھ نوابی ریاستوں کے فیصلوں نے دونوں ممالک کے درمیان میں تعلقات کے درمیان میں دیوار کا کام کیا۔جونا گڑھ بھاتی گجرات کے جنوب مغربی کنارے پر واقع ہندو اکثرتی ریاست تھی۔ ریاست جونا گڑھ کا نواب مہتاب خان ایک مسلمان حاکم تھا۔ نواب مہتاب خان نے ریاست جوناگڑھ کا الحاق پاکستان نے کرنا مناسب سمجھا اور اس کے لیے 15 اگست 1947ء کو پاکستان کے حق میں فیصلہ سنایا۔ حکومت پاکستان نے 15 ستمبر 1947ء کو جوناگڑھ ریاست کے الحاق باقاعدہ طور پر قبول کر لیا۔ بھارتی حکومت نے نواب مہتاب خان کے اس فیصلے کو ماننے سے انکار کر دیا کہ ریاست چونکہ تینوں اطراف سے ہندوستانی سرحدوں سے گھری ہوئی ہے اور اس کی آبادی ہندو اکثریتی ہے جو ہندوستان کے حق میں فیصلہ چاہتے ہیں۔ لہذا جوناگڑھ کا الحاق پاکستان سے کرنا ممکن نہیں۔ پاکستان حکومت نے بھارتی اعتراض کو مسترد کرتے ہوئے ریاست جونا گڑھ کا رابطہ سمندری راستوں سے پاکستانی سرحدوں سے جوڑے رکھنے پر زور دیا۔دونوں ممالک تنازع کو دوستانہ طریقہ سے حل کرنے میں ناکام رہے۔ بھارتی وزیر داخلہ ولبھ بھائی پٹیل نے کہا کہ بھارتی حکومت بھارت میں مذ ہبی بنیادوں پر فساد سے بچنے کے لیے ریاست جونا گڑھ کا الحاق پاکستان سے تسلیم نہیں کر سکتی۔
بھارتی حکومت نے ریاست جونا گڑھ کو جانے والی ایندھن اور کوئلے کی رسد بند کر دی اور بازور ہتھیار ریاست پر قبضہ کرنے کے لیے اپنی فوج ریاست کی سرحدوں پر بھیج دی گئی۔ 26 اکتوبر کو نواب مہتاب خان بھارتی افواج سے جھڑپوں میں مسلسل ناکامی کی وجہ سے پاکستان ہجرت کر گئے اور 9 نومبر کو بھارتی افواج نے جونا گڑھ پر قبضہ کر لیا۔ حکومت پاکستان نے بھارتی جارحیت پر احتجاج ریکارڈ کروایا جسے بھارتی حکومت نے مسترد کر دیا۔ دوسری طرف انڈیا کے اپنے دو پڑوسی ممالک چین اور پاکستان کے ساتھ تعلقات کشیدہ رہے ہیں لیکن ماضی قریب میں پیش آنے والے چند واقعات کے بعد اب تاریخی طور پر نئی دہلی کے قریب تصور کیے جانے والے پڑوسی ممالک جیسا کہ بنگلہ دیش، نیپال، بھوٹان، سری لنکا اور مالدیپ میں بھی انڈیا کے خلاف آوازیں اُٹھتی ہوئی نظر آ رہی ہیں۔
مالدیپ، نیپال اور بھوٹان کی باتیں تو اب پرانی ہو چلی ہیں مگر انڈیا اور سری لنکا کے درمیان تعلقات میں تلخی کا عنصر حالیہ دنوں میں دیکھنے میں آیا جب گذشتہ ہفتے انڈین وزیرِ خارجہ جے شنکر ایک نیوز کانفرنس کے دوران سری لنکن جزیرے ’کچھاتیوو‘ کا ذکر چھیڑ بیٹھے۔ یہ پتھریلا اور ویران جزیرہ انڈیا کے جنوبی ساحل اور سری لنکا کے شمالی خطے کے درمیان واقع ہے۔ یہ جزیرہ سری لنکا کی ملکیت ہے اور اس پر دونوں ممالک کے درمیان کوئی ملکیتی تنازع بھی نہیں ہے۔ ’کچھاتیوو‘ نامی یہ جزیرہ انڈیا کے مقابلے میں سری لنکا سے زیادہ قریب ہے اور یہ سنہ 1921 میں بھی سری لنکا کے برطانوی حکمرانوں کے کنٹرول میں تھا۔
تاریخی طور پر اس جزیرے پر کبھی بھی انڈیا کا قبضہ نہیں رہا۔ سنہ 1974 میں انڈیا اور سری لنکا کے درمیان ایک معاہدے کے تحت اس جزیرے پر سری لنکا کے باقاعدہ اختیار کو تسلیم کر لیا گیا تھا۔ لیکن اب یہ جزیرہ سری لنکا کے حوالے کر دیا گیا تھا۔ اس سے قبل انڈین وزیرِاعظم نریندر مودی بھی تمل ناڈو میں ایک سیاسی ریلی کے دوران اچانک اس جزیرے کا ذکر کرتے ہوئے نظر آئے تھے۔ دونوں ممالک کے سفارتی حلقوں کا خیال ہے کہ انڈیا اپنی داخلی سیاست کے لیے سری لنکا کے ساتھ ایک غیر ضروری تنازع کھڑا کر رہا ہے۔ لیکن انڈیا میں سیاسی شخصیات کے لب ولہجے کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے جیسے انھیں پڑوسی ممالک سے خراب ہوتے تعلقات پر کوئی خاص تشویش نہیں ہے۔ اس حوالے سے وزیرِاعظم نریندر مودی نے ایک جلسے میں کہا تھا کہ ’انڈیا اب پہلے جیسا کمزور ملک نہیں رہا ہے، اب اس کی طاقت پوری دنیا میں محسوس کی جا رہی ہے، ملک کے عوام مودی کی اس پالیسی سے بہت خوش ہیں، انھیں لگتا ہے کہ وزیراعظم مودی نے دنیا میں انڈیا کا نام بہت اونچا کر دیا ہے۔‘ دوسری جانب بنگلہ دیش میں انڈیا کے خلاف اُٹھنے والی آوازیں وزیراعظم نریندر مودی کے بیان کی نفی کرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ بنگلہ دیش میں انڈیا کی بنائی گئی مصنوعات کے بائیکاٹ کرنے کی آوازیں سُنائی دیں اور اس مہم کے پیچھے وہاں کی حزبِ اختلاف کی جماعتیں تھیں۔
سوشل میڈیا پر بھی کچھ لوگوں نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ انڈیا دراصل بنگلہ دیش کی وزیرِاعظم حسینہ واجد کی حکومت کو مضبوط کرنے کے لیے ان کی مدد کرتا ہے۔ ماضی میں انڈیا کے قریب سمجھے جانے والا پڑوسی ملک مالدیپ بھی نئی دہلی سے دوری اختیار کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ وہاں گذشتہ صدارتی انتخاب ’اںڈیا واپس جاؤ‘ کے نعرے پر لڑا گیا تھا۔ اور اپنی انتخابی مہم میں یہ نعرہ بلند کرنے والے محمد معیزہ انتخابات میں کامیاب قرار پائے تھے۔ اقتدار میں آنے کے بعد صدر محمد معیزو نے مالدیپ میں موجود تقریباً 100 انڈین فوجیوں کو واپس اپنے ملک چلے جانے کا حکم دیتے ہوئے کہا تھا کہ اُن کے ملک میں غیرملکی فوجیوں کی موجودگی کا کوئی جواز نہیں ہے۔ بھوٹان اس خطے کا تیسرا ملک ہے جو انڈیا کے سائے سے باہر نکلنے کی کوشش کر رہا ہے۔ خیال رہے ماضی میں انڈیا کے سالانہ بجٹ میں بھوٹان کے لیے امدادی رقم مختص کی جاتی تھی۔ تاہم اب بھوٹان کی جانب سے آزاد خارجہ پالیسی بنائی جا رہی ہے اور چین سے بھی بہتر سفارتی تعلقات استوار کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ گذشتہ برس بھوٹان کے وزیرِاعظم لوتے شیرنگ نے انڈیا اور چین کے درمیان تنازع کی وجہ بننے والے علاقے ’ڈوکلام‘ پر بھی اپنا موقف نرم کیا تھا۔
ڈوکلام ایک متنازع پہاڑی علاقہ ہے جس پر چین اور بھوٹان دونوں اپنا دعویٰ پیش کرتے ہیں۔ یہ وہی علاقہ ہے جہاں کچھ برس پہلے انڈین اور چینی فوجیوں کے درمیان ٹکراؤ ہوا تھا۔ نیپال سے بھی اںڈیا کا پرانا سرحدی تنازع ہے۔ مودی حکومت کے ابتدائی دنوں میں نیپال میں باہمی تعلقات کے حوالے سے کافی جوش خروش تھا، لیکن ایک مرحلے پر نیپال کی معاملات پر اختلاف کے سبب دونوں ممالک کے تعلقات خراب ہوئے۔ اب نیپال بھی چین کے قریب ہوتا ہوا نظر آتا ہے اور بیجنگ کی جانب سے وہاں ہوائی اڈے، شاہراہوں کی تعمیر اور بڑے بڑے منصوبوں پر کام کیا جا رہا ہے۔ واضح رہے کہ انڈیا میں اقلیتی گروہوں کا کہنا ہے کہ انھیں امتیازی سلوک اور تشدد کا سامنا ہے اور نریندر مودی کے دور حکومت میں انھیں دوسرے درجے کے شہری کے طور پر جینا پڑ رہا ہے، تاہم بی جے پی ان الزامات کی تردید کرتی رہی ہے۔خیال رہےکہ حال ہی میں انڈین الیکشن کے بعد نریندر مودی مسلسل تیسری بار انڈیا کے وزیر اعظم بنے ہیں۔ اس الیکشن میں ان کی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) انڈیا کی پارلیمنٹ کے ایوان زیریں لوک سبھا میں اکثریت قائم نہ رکھ سکی اور 543 کے ایوان میں 240 نشستیں حاصل کر پائی۔ تاہم اس کے باوجود اپنے اتحادیوں کی مدد سے بی جے پی مسلسل تیسری مرتبہ حکومت بنانے میں کامیاب ہو گئی ہے۔ نریندر مودی نے تیسری بار انڈیا کے وزیرِ اعظم کے طور پر حلف اُٹھا لیا ہے۔
مودی اپنے سکول کے دنوں میں ایک اوسط طالب علم ہوا کرتے تھے۔ نیلنجن مکھ اوپادھیائے انڈین وزیراعظم کے بارے میں اپنی کتاب ’نریندر مودی – دی مین، دی ٹائمز‘ کے لیے بی این ہائی سکول میں ان دنوں مودی کے استاد پرہلاد بھائی پٹیل سے بات کی۔ مکھ اوپادھیائے لکھتے ہیں کہ مودی کے استاد نے ان کو بتایا کہ ’نریندر اس زمانے میں بہت بحث کرتے تھے۔ ایک بار میں نے ان سے کہا اپنا ہوم ورک کلاس مانیٹر کو دکھا دو۔‘ مودی نے صاف انکار کر دیا کہ ’یا تو وہ اپنا کام استاد کو دکھائیں گے، ورنہ کسی کو نہیں۔‘مودی کے مخالفین بھی یہ تسلیم کرتے ہیں کہ ان میں خود اعتمادی کی کوئی کمی نہیں۔ مودی کے ایک اور سوانح نگار اینڈی مارینو اپنی کتاب ’نریندر مودی اے پولیٹیکل بائیوگرافی‘ میں لکھتے ہیں کہ ’مودی کے بچپن میں شرمشتھا جھیل کے قریب ایک مندر ہوا کرتا تھا۔ اس پر لگے جھنڈے کو کئی مواقعوں پر تبدیل کیا جاتا تھا۔ ایک بار موسلا دھار بارشوں کے بعد اس جھنڈے کو تبدیل کرنا ضروری ہو گیا تھا۔ ’نریندر مودی نے فیصلہ کیا کہ وہ تیر کر جھیل کے پار جائیں گے اور جھنڈا تبدیل کریں گے۔ اس وقت جھیل میں بہت سے مگر مچھ ہوا کرتے تھے۔ کنارے پر کھڑے لوگ مگرمچھوں کو ڈرانے کے لیے ڈھول بجاتے رہے جبکہ نریندر مودی اکیلے تیر کر جھیل کے پار گئے اور مندر کا جھنڈا تبدیل کر دیا۔ جب وہ واپس آئے تو لوگوں نے انھیں کندھوں پر اٹھا لیا۔‘ لیکن کچھ افراد کا کہنا ہے کہ یہ من گھڑت کہانی اور ایسا کچھ ہوا ہی نہیں تھا۔نریندر مودی بچپن سے ہی گھر کے کاموں میں مدد کرتے تھے۔ سکول سے چھٹی ہوتے ہی مودی واد نگر ریلوے سٹیشن پر اپنے والد کے چائے کے سٹال پر پہنچ جاتے تھے۔ نریندر مودی یہ بات ہمیشہ لوگوں کو فخر کے ساتھ بتاتے ہیں۔
کئی افراد جنھوں نے مودی پر کتاب لکھی، ان میں سے اکثر آر ایس ایس کے نظریات کے حامی ہیں۔ ان تمام افراد نے بڑی تفصیل کے ساتھ ان دنوں کے بارے میں لکھا جب وہ واد نگر اور احمد آباد میں چائے بیچا کرتے تھے۔ کئی میڈیا رپورٹ کے مطابق مودی سٹیشن پر چائے بیچنے کے بعد گیتا مندر بس سٹاپ کے پاس واقع اپنے ماموں کی کینٹین پر ان کی مدد کرتے تھے۔نریندر مودی کی دیرینہ خواہش تھی کہ وہ پرائمری کے بعد جام نگر کے سینک سکول میں داخلہ لیں لیکن ان کے خاندان کے مالی حالات نے انھیں اس کی اجازت نہیں دی۔ دوسری جانب مودی کے والد بھی نہیں چاہتے تھے کہ وہ پڑھائی کے لیے واد نگر سے باہر جائیں۔
مودی نے ایک مقامی ڈگری کالج میں داخلہ لیا تاہم غیر حاضریوں کی وجہ سے انھیں کالج چھوڑنا پڑا۔ بعد ازاں انھوں نے دلی یونیورسٹی سے بی اے اور پھر گجرات یونیورسٹی سے سیاسیات میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ جب کچھ لوگوں نے رائٹ ٹو انفارمیشن کے قانون کے تحت مودی کی ایم اے کی ڈگری کی تفصیلات حاصل کرنے کے لیے گجرات یونیورسٹی سے رابطہ کیا تو انھیں بتایا گیا کہ مودی نے 1983 میں ایم اے کا امتحان فرسٹ کلاس میں پاس کیا تھا۔ بعد میں تنازع اس وقت کھڑا ہوا جب گجرات یونیورسٹی کے پروفیسر جینتی بھائی پٹیل نے دعوٰی کیا کہ مودی کی ڈگری میں جن مضامین کا ذکر ہے وہ پولیٹیکل سائنس کے ایم اے کے نصاب میں کبھی شامل ہی نہیں تھے۔ گجرات یونیورسٹی ان الزامات کی تردید کرتی ہے۔2014 میں بی جے پی کی جانب سے وزارتِ عظمی کے لیے نامزد کیے جانے کے بعد نریندر مودی نے سرِ عام تسلیم کیا کہ وہ شادی شدہ ہیں۔ گجرات میں وڈودرا (جسے بڑودہ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے) سے لوک سبھا کی سیٹ کے لیے اپنے کاغذات نامزدگی کے ساتھ انھوں نے جو حلف نامہ داخل کیا اس میں نریندر مودی نے بیوی کے نام والے کالم میں ’یشودا بین‘ لکھا۔ اس سے قبل نریندر مودی کے خاندان کے بارے میں بہت کم معلومات دستیاب تھی۔ جب مودی پہلی بار وزیراعظم بنے تو یشودا بین کو سرکاری سکیورٹی فراہم کی گئی۔ تاہم وہ الٹا اس سکیورٹی سے پریشان دکھائی دیں۔
انھوں نے مہیسا کے پولیس اہلکار کو رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ کے تحت ایک درخواست دی کہ انھیں بتایا جائے کہ ان کے حقوق کیا ہیں۔ مودی کو آر ایس ایس میں لانے کا سہرا اگر کسی کے سر جاتا ہے تو وہ ہیں لکشمن راؤ انعامدار عرف وکیل صاحب۔ اس زمانے میں وکیل صاحب گجرات میں آر ایس ایس کے ریاستی پرچارک ہوا کرتے تھے۔ ایم وی کامتھ اور کالندی راندیری اپنی کتاب ’نریندر مودی: دی آرکیٹیکٹ آف اے ماڈرن سٹیٹ‘ میں لکھتے ہیں کہ ’ایک بار مودی کے والدین بہت افسردہ تھے کہ وہ دیوالی پر گھر نہیں آئے۔ اس دن وکیل صاحب انھیں آر ایس ایس کی رکنیت دلوا رہے تھے۔‘ وکیل صاحب کی وفات 1984 میں ہوئی لیکن مودی انھیں کبھی نہیں بھولے۔ مودی نے آر ایس ایس کے ایک اور کارکن راجا بھائی نینے کے ساتھ مل کر وکیل صاحب پر ایک کتاب ‘سیتو بند’ لکھی ہے۔وزیر اعلی بننے کے صرف چار ماہ بعد ہی مودی کو پہلے چیلنج کا سامنا اس کرنا پڑا جب ایودھیا سے واپس آنے والی ٹرین کو گودھرا میں آگ لگا دی گئی جس کے نتیجے میں 58 افراد ہلاک ہو گئے۔ اگلے دن وشوا ہندو پریشد نے ریاست گیر بندش کی کال دی جس کے بعد گجرات میں ہندو مسلم فسادات پھوٹ پڑے۔ اس سے 2000 سے زیادہ لوگ اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ مودی پر الزام ہے کہ انھوں نے صورتحال پر قابو پانے کے لیے فوری کارروائی نہیں کی۔ اس دوران ایک پریس کانفرنس سے بات کرتے ہوئے مودی نے ایک متنازع بیان دیا کہ ’ہر عمل کا برابر اور مخالف ردعمل ہوتا ہے۔‘ اس کے ایک دن بعد انھوں نے ایک ٹی وی چینل کو دیے گئے انٹرویو میں اس بات کا اعادہ کیا کہ ’عمل اور ردعمل کا ایک سلسلہ جاری ہے۔ ہم کوئی ایسا عمل نہیں چاہتے ہیں اور نہ ہی ردعمل۔‘گجرات فسادات کے برسوں بعد جب ایک صحافی نے اٹل بہاری واجپائی کے پرنسپل سیکریٹری برجیش مشرا سے پوچھا کہ واجپائی نے گجرات فسادات کے بعد مودی کو برطرف کیوں نہیں کیا، تو ان کا کہنا تھا کہ ’واجپائی چاہتے تھے کہ مودی استعفیٰ دے دیں۔ ’لیکن وہ حکومت کے سربراہ تھے، پارٹی کے نہیں۔ پارٹی نہیں چاہتی تھی کہ مودی جائیں۔‘ مشرا کا کہنا تھا کہ واجپائی کو پارٹی کی رائے کے سامنے جھکنا پڑا۔گجرات فسادات سے جڑے داغوں کو مٹانے کے لیے نریندر مودی نے بطور وزیراعلی اپنے دور میں گجرات میں ہونے والی معاشی ترقی کو پیش کرنے کی کوشش کی۔ مودی اسے ’گجرات ماڈل‘ کہتے ہیں۔ اس ماڈل کے تحت پرائیویٹ سیکٹر کو فروغ دیا گیا، سرکاری کمپنیوں کے نظام میں بہتری لائی گئی اور 10 فیصد کی متاثر کن شرح نمو حاصل کی گئی۔
جب 2008 میں مغربی بنگال میں ٹاٹا موٹرز کے سنگور میں پلانٹ لگانے کے خلاف تحریک چلی تو مودی نے کمپنی کو نہ صرف گجرات میں پلانٹ لگانے کی دعوت دی بلکہ انھیں پلانٹ لگانے کے لیے زمین، ٹیکس میں چھوٹ اور دیگر سہولیات بھی فراہم کیں۔ ٹاٹا کمپنی کے مالک رتن ٹاٹا اس سے بہت خوش ہوئے اور انھوں نے نے مودی کی بہت تعریف کی۔ جہاں کچھ لوگ گجرات ماڈل سے بہت متاثر ہیں وہیں کئی حلقوں کی جانب سے اس کو تنقید کا بھی نشانہ بنایا گیا ہے۔ صحافی روتم وورا نے انڈین اخبار ’دی ہندو‘ میں شائع ایک مضمون میں لکھا ہے کہ ’وائبرنٹ گجرات‘ کے آٹھ ایڈیشنز میں کھربوں کروڑ روپے کے سرمایہ کاری کے معاہدوں پر دستخط کیے گئے لیکن ان میں سے بیشتر مکمل نہیں ہوئے۔ ’اگر فی کس آمدنی کی بنیاد دیکھیں تو گجرات یقیناً انڈیا میں پانچویں نمبر پر تھا، لیکن نریندر مودی کے عروج سے پہلے ہی گجرات کا شمار انڈیا کی ترقی یافتہ ریاستوں میں ہوتا تھا۔‘گجرات فسادات کے بعد مودی کو نہ صرف انڈیا میں بلکہ عالمی سطح پر تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ امریکہ نے انھیں ویزا جاری کرنے سے منع کر دیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اتنی مخالفت کے باوجود نریندر مودی کیسے اتنی عوامی پذیرائی حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔
مودی کی طرزِ حلومت پر لکھی گئی کتاب ’سینٹر سٹیج – ان سائیڈ مودی ماڈل آف گورننس‘ کے مصنف ادے مہورکر کہتے ہیں کہ ’نریندر دامودر مودی نے برانڈ مودی بنانے کے لیے بہت محنت کی ہے۔ ہر چھوٹی چھوٹی بات پر انگلیوں سے وی (وکٹری) کا نشان بنانا، خود اعتمادی یا گھمنڈ، بھرپور چال، ان کا ‘ٹریڈ مارک’ آدھی آستین والا کرتہ ہو یا چست چوڑی دار پاجامہ، ہر ایک چیز کو سوچ سمجھ کر ڈیزائن کیا گیا ہے۔‘ دنیا کو مودی کی جو تصویر کے سامنے پیش کی گئی ہے، وہ ایک نئے دور کے شخص کی ہے جو لیپ ٹاپ استعمال کرتا ہے، مالیاتی اخبار پڑھتا ہے اور جس کے ہاتھ میں ڈی ایس ایل آر کیمرا ہے۔ کبھی وہ اوبامہ کی سوانح عمری پڑھ رہے ہوتے ہیں۔ کبھی وہ ٹریک سوٹ پہنے دکھائی دیتے اور کبھی سر پر کاؤ بوائے ہیٹ پہنے۔معروف سوشالوجسٹ پروفیسر آشیش نندی مودی کو ایک سخت شخصیت قرار دیتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’وہ فلمیں نہیں دیکھتے۔ شراب اور سگریٹ نہیں پیتے۔ زیادہ مسالے دار کھانا نہیں کھاتے۔ تنہا کھچڑی کھاتے ہیں۔ مخصوص تہواروں پر اپواس رکھتے ہیں جیسے نوراتری پر۔ جب وہ دن میں صرف لیموں والا پانی یا چائے کا ایک کپ پیتے ہیں۔‘ وہ لکھتے ہیں کہ مودی تنہا رہتے ہیں اور اپنی والدہ یا بھائی بہن سے رابطہ نہیں کرتے۔
بعض اوقات انھیں وہیل چیئر پر موجود اپنی والدہ کی خدمت کرتے دیکھا جاتا ہے۔ اس طرح وہ اپنی ایک اچھی شخصیت ظاہر کرتے ہیں۔ ایک بار انھوں نے ہمانچل پردیش میں انتخابی ریلی کے دوران کہا تھا کہ ’میرے اپنے خاندان سے قریبی تعلقات نہیں۔ میں اکیلا ہوں۔ میں کس کے لیے بددیانتی کروں گا؟ میرا ذہن اور جسم قوم کی خدمت کے لیے مختص ہیں۔‘