تحریر: علی شیر خان محسود
پاکستان جب سے ایٹمی قوت بن چکا ہے۔ اسلام اور پاکستان دوشمن قوتیں دن رات ایسے منصوبے بنا رہے ہیں جس کی وجہ سے پاکستان کو مسلسل معاشی، سیاسی انتشار، لسانی اور مذھبی کروہ بندیوں میں مبتلا رکھا جائے۔ ساتھ ساتھ پاکستان میں صوبائی تعصب کو بھی پروان چڑھایا جا سکے۔ جسمیں سندھی ، بلوچی ، پنجابی اور پٹھان کا عنصر سر فہرست رہے۔ اسکے ساتھ انہی منصوبہ سازوں نے پاکستان میں پہلے شیعہ سنی کا مسلکی مسئلہ کھڑ ا کرکے امن کو تباہ کیا، جب ان دونوں مسلکوں کے جید علماء اور مشائخ و فقہاء نے مل بیٹھ کر اس مسلکی ناسور کا خاتمہ کرلیا تو دشمنان اسلام و پاکستان نے حالات کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے دیوبندی، بریلوی، اہل حدیث کے درمیان فقہی مسائل پر ناچاقی پیدا کرنے اور مناظرے کرانے کی مذموم کوشش شروع کردی۔ جس سے عام لوگ کے سیدھے سادے ذہنوں میں اسلام کے بارے میں سوالات پیدا کرنے شروع ہوئے کہ جب اسلام کے کر علماء، مشائخ اور مذھبی رہنماؤں میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ وہ متحد نہیں ہو سکتے تو عوام کی کیا حالت ہوگی ۔ اس وجہ سے عوام میں اسلام اور اسلامی اقدار کے پنپنے کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کی گئیں اور لوگ جو کبھی اسلام سے والہانہ محبت رکھتے تھے۔ اسلامی روایات سے دور ہوتے چلے گئے۔ جب اسلامی نظریات کے حامل علماء و مشائخ نے اس نفرت انگیز رجحان پر قابو پالیا تو عوام کو ان علماء اور ۔مشائخ اور مذھبی رہنماؤں کے کردار اور انکی نظریات سے متنفر کرنے کیلئے ان پر کیچڑ اچھالنے کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع کیا گیا۔ تاکہ پاکستانی عوام کو یہ مذہبی رہنما پھر سے ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے میں کامیاب نہ ہو سکے۔ جو آج تک جاری ہے۔ جس سے دو طرفہ مقاصد اسلام و پاکستان دشمنوں کا حصول تھا۔عوام کے دلوں میں سے اسلام کی محبت کا خاتمہ کرنا اور لوگوں کو آزاد خیالی کی طرف لیکر جانا جس کو نام نہاد آزادی کا نام دیکر نعرے کی شکل اختیار کرلی۔ جوان نسل جن کو نام نہاد آزادی کے نام پر آزاد خیالی کے نعرے سے بہلایا گیا۔ آج وہ ہمارے سامنے ایک حقیقت کے روپ میں موجود ہیں۔ جنکو لاکھوں تاویلوں سے سمجھانا مشکل ہو رہا ہے۔ مزید برآں انکے ذہنوں پر اب کسی دوسرے منتر جنتر اثر انداز ہوتا مشکل ثابت ہو رہا ہے۔ جو حالات اور وقت کی نزاکت سے مطابقت نہیں رکھتا۔ اگرچہ وقت کے ساتھ ساتھ ان کی سمجھ میں یہ بات ضرور آئیگی کہ ہمیں ذہنی طور پر ہپناٹائز کیا گیا تھا۔ لیکن اس وقت بہت دیر ۔۔کیونکہ پانی سر سے گذر چکا ہوگا۔ اور پاکستان و اسلام دشمن قوتیں اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب ہو چکی ہونگی۔ جن کا مقصد پاکستان کو دفاعی و معاشی اور معاشرتی طور مفلوج کرنا ہے۔ پاکستانی عوام ایک بار پھر من گھڑت اور جھوٹے پروپیگنڈوں سے نام نہاد ترقی خوشحالی اور آزادی کے نعروں سے بہلا پھسلا رہے ھیں۔ ایک تواتر سے شاطر یہودی و قادیانی ذہنیت اپنے ایجنٹوں کے ذریعے پاکستان کے دفاعی اداروں اور ایٹمی ہتھیاروں سے کو عوام کو متنفر کررہے ہیں ۔ انکے ان مذموم مقاصد کی روک تھام کر نے کیلئے خصوصی منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ تاکہ قبل از وقت ایسے قبیح اور منافقانہ کردار کے حامل لوگوں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔ یہ وقت اور حالات کا تقاضہ ہے۔ اور ان ذمہ دار اداروں کا فرض بھی جو اس کام کیلئے مختص کئے گئے ہیں۔ ملک کو خوشحالی اور ترقی کی طرف لیکر جانا انہی پالیسی پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ جو ملک و قوم کی بہتری کیلئے ضروری ہیں۔ کسی مصلحت اور وقتی ضرورتوں کو پس پشت ڈال کر آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔