چکوال (روشن پاکستان نیوز) چکوا ل کے نمبردار نےسرکاری ہسپتالوں کی کارکردگی سے پردہ اٹھا دیا جب وہ اپنے دوست ایکسیڈینٹ پر اسے ہسپتال لیکر گئے مگر ایمرجنسی میں کوئی ڈاکٹر نہ ملا اورنہ ہی وارڈ میں کوئی موجود تھا ، ڈی ایم ایس کے پاس بھی گئے مگرگھنٹوں انتظار کے بعد بھی کوئی مراد نہ بر آئی ۔
انہوں نے بتایا کہ ہسپتال میں دن ایک بجے کے بعد اور تین بجے کے درمیان کوئی ڈاکٹر نہیں تھا،اور پھر انہوں نے ہسپتال کی حالت زار اور کارکردگی پر تفصیلی ویڈیو بنا کراپنے صحافی دوست کو بھیجی اورصحافی نے ڈی سی صاحبہ کو کال کی، اس کال کے بعدڈاکٹر تو نہ آئے البتہ پولیس آگئی تھی اور انہوں نے موبائل لے کر ویڈیو ڈیلیٹ کر دی۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ کیا ہم ان کو غلط کام کرنے کی تنخواہ دیتے ہیں۔ ہمارے ٹیکس کا پیسہ ہے جو ہم ان کو تنخواہیں دیتے ہیںانہوں نے کہا کہ ایک معزز شہری کیساتھ ہسپتال میں کیا سلوک ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر میں ایک نمبردار نہ ہوتا تو جانے پولیس والے میرے ساتھ کیا سلوک کرتے۔انہوں نے کہا کہ پولیس کو کیا حق ہے کہ وہ موبائل چھین کر ان سے ویڈیو ڈیلیٹ کرواتے، یہ سب چور بازاری بنی ہوئی ہے چکوال میں جو پولیس ادھر بیٹھی ہوئی ہے چوکی بنائی ہوئی ہے پولیس والے تعلق کی بنا پر چیک آپ کرواتے ہیں۔
مزید پڑھیں: فیملی کے ساتھ بدسلوکی پر محمد عامر نے وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز سے مطالبہ کر دیا
انہوں نے کہاکہ جب بھی کوئی ہسپتال گیا ڈاکٹر نہیں ملا ڈاکٹر نے علاج نہیں کیا ڈاکٹر نے ایمرجنسی میں چیک نہیں کیا اور او پی ٹی میں چلے جائیں تو وہاں پہ آپ دیکھیں گے کہ جو عورت وہاں پہ جو سٹاف عورت کا مطلب ساری جو سٹاف وہاں پہ بیٹھا ہوتا ہے وہ کر کیا رہا ہوتا ہے کہ اپنے موبائل استعمال کر رہے ہوتے ہیں، پرچیوں پر علاج ہوتا ہے ، جو بندہ ہسپتال میں کام کرتا ہے،وہ فون پہ بات کراتے ہیں پرچی بنتی ہے باقی کسی بندے غریب کی نہیں کسی بندے کی غریب کی جو لائنوں میں لگے ہوئے ہیں ان دو دو گھنٹے تین تین گھنٹے بعد ان کا نمبر آتا ہے،لوگ جو ہسپتال میں جاتے ہیں وہاں پہ ویڈیو بنانے کی اجازت نہیں ہے کیوں کہ کالے کرتوت چھپانے. کام نہ کرنے کے بہانے چھپانے ہوتے ہیںانہوں نے ڈی پی اوسے ریکویسٹ کی کہایمرجنسی کے ساتھ بنائی گئی پولیس چوکی کو کچھ دور سائڈ پر بنایا جائے۔