اسلام آباد(روشن پاکستان نیوز) وفاقی وزیرِ صحت سید مصطفیٰ کمال نے خبردار کیا ہے کہ اینٹی مائیکروبیل ریزسٹنس (AMR) پاکستان کے لیے نہ صرف صحتِ عامہ بلکہ قومی سلامتی اور معیشت کے لیے بھی ایک سنگین خطرہ بن چکی ہے۔ انہوں نے اینٹی بایوٹکس کے بے قابو اور غلط استعمال کو روکنے کے لیے فوری پابندیوں اور “ون ہیلتھ” (One Health) اپروچ کے مکمل نفاذ پر زور دیا۔
یہ بات انہوں نے اسلام آباد میں اینٹی مائیکروبیل ریزسٹنس اور ون ہیلتھ اپروچ پر منعقدہ اعلیٰ سطحی پالیسی مکالمے سے خطاب کرتے ہوئے کہی، جس میں اعلیٰ پالیسی سازوں، ماہرین اور مختلف شعبوں کے نمائندوں نے شرکت کی۔ وفاقی وزیرِ صحت نے کہا کہ صحت کا شعبہ اب صرف مریضوں کے علاج تک محدود نہیں رہا بلکہ یہ پورے قومی نظام کے تحفظ سے جڑا ہوا معاملہ بن چکا ہے۔ انہوں نے کووِڈ 19 کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ غیر معمولی صحت کے بحران کسی بھی ملک کے اسپتالوں اور نظام کو مفلوج کر سکتے ہیں، اور اگر پاکستان میں صحت کے نظام کو درست نہ کیا گیا تو اس کے منفی اثرات معیشت، دفاع اور قومی استحکام پر پڑیں گے۔
پالیسی مکالمہ ہیلتھ سروسز اکیڈمی (HSA) کے ون ہیلتھ ورک فورس ڈیولپمنٹ اینڈ کوآرڈینیشن منصوبے کے تحت منعقد کیا گیا۔ اس موقع پر اکیڈمی کے وائس چانسلر پروفیسر شہزاد علی خان نے کہا کہ پاکستان میں اے ایم آر کے خلاف کوششیں اس لیے مؤثر ثابت نہیں ہو رہیں کیونکہ مویشی اور پولٹری کے شعبوں میں اینٹی بایوٹکس کا غیر منظم اور وسیع استعمال جاری ہے۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ ان شعبوں میں ادویات خوراکوں کے بجائے کلوگرام کے حساب سے استعمال کی جاتی ہیں، اور اگر فارم کی سطح پر اس مسئلے کو حل نہ کیا گیا تو انسانی صحت کے شعبے میں اقدامات ناکافی ثابت ہوں گے۔
پروفیسر شہزاد علی خان نے بتایا کہ ہیلتھ سروسز اکیڈمی نے ون ہیلتھ کے تصور کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ماسٹر ٹرینرز کی تربیت، باقاعدہ ون ہیلتھ نصاب کی تیاری اور مختلف غیر صحت کے شعبوں کے ساتھ منظم پالیسی مکالمے کا آغاز کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ون ہیلتھ کوئی نعرہ نہیں بلکہ ایک مؤثر حکمرانی ماڈل ہے، جس کے بغیر پاکستان مستقبل کی وباؤں اور ادویات کے خلاف مزاحم انفیکشنز کے سامنے کمزور رہے گا۔
قومی کوآرڈینیٹر ون ہیلتھ پروفیسر طارق محمود علی نے کہا کہ اینٹی مائیکروبیل ریزسٹنس اب مستقبل کا نہیں بلکہ موجودہ عالمی ہنگامی مسئلہ ہے۔ انہوں نے بتایا کہ 2019 میں اے ایم آر کے باعث براہِ راست تقریباً 12 لاکھ 70 ہزار اموات ہوئیں جبکہ مجموعی طور پر تقریباً 50 لاکھ اموات اس سے منسلک تھیں، جن میں بڑی تعداد پانچ سال سے کم عمر بچوں کی تھی۔ انہوں نے خبردار کیا کہ 2050 تک یہ اموات 3 کروڑ 90 لاکھ سے تجاوز کر سکتی ہیں، جبکہ اے ایم آر کے باعث عالمی معیشت کو بھی شدید نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے۔
مزید پڑھیں: دیوار پر لکھا ہے الیکشن جلد نہیں ہوں گے، بلاول بھٹو
ریگولیٹری اقدامات کے حوالے سے ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان (DRAP) کے چیف ایگزیکٹو آفیسر ڈاکٹر عبیداللہ نے کہا کہ اینٹی بایوٹکس کی فروخت اور استعمال سے متعلق نئے قواعد و ضوابط اور قانون سازی تیار کر لی گئی ہے۔ منظوری کے بعد اینٹی بایوٹکس صرف مستند نسخے پر فروخت ہوں گی اور اوور دی کاؤنٹر فروخت کا مکمل خاتمہ کر دیا جائے گا۔ انہوں نے بتایا کہ “واچ” اور “ریزرو” گروپ کی اینٹی بایوٹکس پر سخت کنٹرول ہوگا اور انہیں صرف ماہر کنسلٹنٹس تجویز کر سکیں گے، جبکہ انتہائی نگہداشت یونٹس (ICU) کے لیے مخصوص ادویات صرف اسپتالوں کی فارمیسیوں تک محدود رہیں گی۔
شرکاء نے اس بات پر اتفاق کیا کہ اینٹی مائیکروبیل ریزسٹنس کا مؤثر مقابلہ صرف صحت کے شعبے کے ذریعے ممکن نہیں بلکہ اس کے لیے انسانی صحت، حیوانی صحت، زراعت، ماحولیات اور ریگولیٹری اداروں کے درمیان مربوط اور جامع حکمتِ عملی ناگزیر ہے۔ انہوں نے نیشنل ایکشن پلان برائے اے ایم آر کے مؤثر نفاذ، نگرانی کے نظام کو مضبوط بنانے اور ایک تربیت یافتہ ون ہیلتھ ورک فورس میں سرمایہ کاری پر زور دیا۔











