جمعه,  26 دسمبر 2025ء
ایئر بلیو طیارہ حادثہ: 15 سالہ قانونی جدوجہد کے بعد آٹھ متاثرہ خاندانوں کو 5.4 ارب روپے معاوضہ، عدالت کا تاریخی فیصلہ

اسلام آباد(روشن پاکستان نیوز) سال 2010 میں ایئر بلیو کی فلائٹ نمبر ای ڈی 202 اسلام آباد میں لینڈنگ کے دوران مارگلہ ہلز سے ٹکرا کر تباہ ہو گئی تھی، جس کے نتیجے میں طیارے میں سوار تمام 152 افراد جان کی بازی ہار گئے۔ اس حادثے نے سینکڑوں خاندانوں کی زندگیاں ہمیشہ کے لیے بدل دیں۔ ان متاثرین میں کراچی کے پھل فروش گوہر رحمان کا 22 سالہ بیٹا عرفان، انجینیئر حامد جنید کی اہلیہ عندلیب، اور صحافی قیصر ذوالفقار کے بھائی حیدر ذوالفقار شاہ بھی شامل تھے، جن کی میت تک لواحقین کو نہ مل سکی۔

حادثے کے بعد ایئر بلیو کی جانب سے متاثرہ خاندانوں کو ابتدائی طور پر محدود معاوضہ ادا کیا گیا، تاہم آٹھ خاندانوں نے اسے ناکافی قرار دیتے ہوئے بہتر اور منصفانہ معاوضے کے لیے قانونی راستہ اختیار کیا۔ ان خاندانوں کا مؤقف تھا کہ حادثہ قدرتی نہیں بلکہ ایئر لائن اور اس کے عملے کی غفلت کا نتیجہ تھا، جس کی تصدیق سرکاری انکوائری رپورٹ میں بھی کی گئی تھی۔

متاثرین نے عدالت میں مؤقف اپنایا کہ خراب موسم میں طیارے کو خطرناک حد تک کم بلندی پر لایا گیا، لینڈنگ کے طے شدہ طریقہ کار کی خلاف ورزی کی گئی اور حفاظتی انتباہات کو نظرانداز کیا گیا۔ دوسری جانب ایئر بلیو نے یہ مؤقف اختیار کیا کہ یہ ایک مقامی پرواز تھی، اس لیے بین الاقوامی قوانین لاگو نہیں ہوتے، اور کمپنی پہلے ہی قانون سے بڑھ کر معاوضہ ادا کر چکی ہے۔

15 سال تک مختلف عدالتوں میں سماعت کے بعد اسلام آباد کی ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالت (ویسٹ) نے فیصلہ سناتے ہوئے ایئر بلیو کو عملے کی غفلت کا ذمہ دار قرار دیا۔ عدالت نے کہا کہ ایئر لائن اپنے عملے کے اقدامات کی براہِ راست ذمہ دار ہے اور متاثرین نے اپنے دعوے کے حق میں ٹھوس شواہد پیش کیے، جبکہ ایئر بلیو اپنی بے گناہی ثابت کرنے میں ناکام رہی۔

عدالت نے 2012 کے ایئر کیرج ایکٹ اور مرنے والوں کی متوقع زندگی، آمدن اور لواحقین کو پہنچنے والے نقصان کو مدنظر رکھتے ہوئے آٹھ متاثرہ خاندانوں کو مجموعی طور پر 5.4 ارب روپے معاوضہ ادا کرنے کا حکم دیا۔ انفرادی طور پر یہ رقم 14 کروڑ سے لے کر ایک ارب 10 کروڑ روپے تک بنتی ہے۔

مزید پڑھیں: پی آئی اے کی نجکاری سے متعلق بڑی خبر سامنے آگئی

متاثرین کے وکیل، سپریم کورٹ کے ایڈووکیٹ عمر فاروق آدم کے مطابق یہ مقدمہ ملکی اور بین الاقوامی قوانین کی روشنی میں لڑا گیا اور اس میں ماہر چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ کی مدد سے نقصان کا مکمل مالی تخمینہ لگایا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ فیصلہ مستقبل میں ایسے حادثات میں احتساب کی ایک مضبوط مثال بنے گا۔

حادثے میں اپنی اہلیہ کو کھونے والے حامد جنید کے مطابق یہ جدوجہد پیسوں کے لیے نہیں بلکہ انصاف اور اصول کے لیے تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ کئی خاندان مالی مجبوریوں کے باعث ابتدائی معاہدوں پر دستخط کرنے پر مجبور ہو گئے، لیکن آٹھ خاندانوں نے تمام مشکلات کے باوجود قانونی جنگ جاری رکھی اور بالآخر انصاف حاصل کیا۔

یہ فیصلہ نہ صرف متاثرہ خاندانوں کے لیے ایک بڑی کامیابی ہے بلکہ پاکستان میں فضائی تحفظ اور ادارہ جاتی ذمہ داری کے حوالے سے ایک اہم نظیر بھی قائم کرتا ہے۔

مزید خبریں