لاہور(روشن پاکستان نیوز) لاہور ہائیکورٹ میں پراپرٹی آونر شپ آرڈیننس کے تحت کی جانے والی کارروائیوں کے خلاف درخواستوں پر سماعت ہوئی،عدالت نے درخواستیں فل بینچ کے روبرو لگانے کی ہدایت کر دی۔
چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس عالیہ نیلم نے مشتاق احمد سمیت دیگر درخواست گزاروں کی درخواستوں پر سماعت کی۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس عالیہ نیلم نے ریمارکس دیے کہ قانون میں واضح طور پر درج ہے کہ اگر معاملہ سول کورٹ میں زیر التوا ہو تو ڈپٹی کمشنر متعلقہ عدالت میں درخواست دے گا، اور سول کورٹ پابند ہوگی کہ کیس ٹریبونل کو بھجوائے،چیف جسٹس نے سرکاری وکیل سے استفسار کیا کہ آیا اس قانونی نقطے پر عمل ہو رہا ہے یا نہیں۔
مزید پڑھیں: لینڈ پروٹیکشن قانون کی معطلی کو عوام قبضہ مافیا کی پشت پناہی سمجھیں گے: مریم نواز
چیف جسٹس نے سوال اٹھایا کہ بغیر کسی تحریری حکم کے زبانی طور پر قبضے کیسے دلوائے جا رہے ہیں، اور کہا کہ اگر عدالت بھی بغیر آرڈر کے کوئی ہدایت دے تو کیا اس پر عمل کیا جائے گا؟
چیف جسٹس نے کہا کہ ہر فریق یہی کہے گا کہ پہلے آرڈر دکھائیں پھر بات کریں،عدالت نے سرکاری وکیل سے پوچھا کہ کیا ٹریبونلز نے زبانی احکامات جاری کیے اور کیا ٹریبونلز نے باقاعدہ کام شروع کر دیا ہے؟
چیف جسٹس عالیہ نیلم نے ریمارکس دیے کہ تقریباً ڈھائی ماہ بعد ٹریبونلز کا نوٹیفکیشن کیا گیا، مگر تاحال ٹریبونلز نے کام شروع نہیں کیا، نہ عملہ موجود ہے اور نہ یہ واضح ہے کہ ٹریبونلز کہاں بیٹھیں گے۔
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا یہ اختیارات سے تجاوز اور قانون کا غلط استعمال نہیں؟عدالت نے ریمارکس دیے کہ قانون میں واضح ہونا چاہیے کہ درخواست آنے پر کارروائی کیسے ہوگی، جبکہ موجودہ قانون میں یہ تمام تفصیلات درج نہیں۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کہاں لکھا ہے کہ کمیٹیاں قبضہ دلوائیں گی، کیونکہ قانون کے مطابق ٹریبونل کارروائی مکمل ہونے کے بعد قبضے کا حکم دیتا ہے۔
چیف جسٹس عالیہ نیلم نے سوال اٹھایا کہ پیرا کس اختیار کے تحت قبضے دلوارہا ہے، اور کہا کہ کمیٹی پیرا کو کہتی ہے اور پیرا قبضہ دلوا دیتی ہے، جو قانون کے مطابق نہیں۔











