اسلام آباد(شہزاد انور ملک) اے ایس پی شہربانو نقوی نے حال ہی میں ایک پوڈکاسٹ میں شرکت کی جس کا ایک کلپ سوشل میڈیا پر تیزی سے وائرل ہو رہا ہے۔ وائرل کلپ میں دیکھا جا سکتا ہے کہ اے ایس پی شہربانو نقوی پوڈکاسٹ کے دوران گفتگو کر رہی ہوتی ہیں کہ اسی اثنا میں انہیں ایس ایچ او کی جانب سے ایک فون کال موصول ہوتی ہے۔ وہ میزبان سے کہتی ہیں کہ آپ یہیں بیٹھے رہیں ایک قتل کا واقعہ پیش آ گیا ہے میں جلدی سے ہو کر آتی ہوں۔
تقریباً 1 گھنٹے بعد اے ایس پی شہربانو نقوی دوبارہ پوڈکاسٹ میں واپس آتی ہیں جہاں میزبان ان سے پیش آنے والے واقعے کے بارے میں سوال کرتے ہیں۔ جواب میں وہ بتاتی ہیں کہ قتل ہو گیا تھا۔ میزبان نے تفصیلات پوچھیں تو شہربانو نقوی نے بتایا کہ قتل کا واقعہ ڈیفنس فیز 8 میں پیش آیا تھا۔
اے ایس پی کے مطابق واقعے میں ایک شخص نے رقم کے تنازع پر منصوبہ بندی کے تحت اپنے دوست کو قتل کر دیا جبکہ مقتول کے اہلِ خانہ کو یرغمال بنا لیا گیا۔ انہوں نے بتایا کہ جب مقتول کے رشتہ دار باہر سے آئے اور فون کالز کا جواب نہ ملا تو انہوں نے دیوار پھلانگ کر اندر جا کر صورتحال کا جائزہ لیا۔ گھر کی مالکن کے ہاتھ بندھے ہوئے تھے جنہوں نے اشاروں کے ذریعے گھر میں موجود ملزم کی نشاندہی کی۔
بعد ازاں رشتہ دار فوری طور پر تھانے پہنچے اور پولیس کو اطلاع دی۔ پولیس نے موقع پر پہنچ کر دروازہ توڑا اور ملزم کو رنگے ہاتھوں گرفتار کر لیا۔ اے ایس پی کے مطابق ملزم ایک بچی کو یرغمال بنائے ہوئے تھا اور اس پر اسلحہ تانے کھڑا تھا جبکہ مقتول کی لاش ڈرائنگ روم سے برآمد ہوئی۔
مزید پڑھیں: منشیات کے مقدمات میں مجرمان کو مجموعی طورپر30سال قیدکی سزائیں
لاہور سے تعلق رکھنے والے صحافی یاسر کی جانب سے ایک جوابی ویڈیو وائرل ہوئی ہے جس میں مبینہ طور پر کسی کی موت کا مذاق اڑایا جا رہا ہے، جس پر سوشل میڈیا صارفین نے شدید تنقید کی ہے۔ صارفین کا کہنا ہے کہ انسانی جان اور موت کے معاملات پر مذاق کرنا کسی صورت مناسب نہیں، اور صحافیوں کو اخلاقیات کا دھیان رکھتے ہوئے اپنی رپورٹنگ کرنی چاہیے۔
صارفین نے اس بات پر بھی اعتراض کیا کہ پوڈکاسٹ میں موجود نوجوان صحافی کو بھی صحافتی اصول و ضوابط کا علم نہیں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جب کسی انٹرویو یا رپورٹنگ میں شریک ہوتے ہیں تو موبائل فون بند رکھنا یا ذاتی نوٹسسائڈ پر رکھنا صحافتی ذمہ داری کا حصہ ہوتا ہے، تاکہ خبر کی سنجیدگی اور حقائق کو درست انداز میں پیش کیا جا سکے۔
علاوہ ازیں، کئی حلقوں نے پنجاب پولیس پر بھی سوال اٹھایا ہے کہ وہ ایسے لائیو پوڈکاسٹ میں کیسے کرائم یا کسی موت کی خبر دیتے ہیں، اور کہا کہ پولیس کو بھی اپنی اطلاع رسانی کے طریقہ کار پر نظر ثانی کرنی چاہیے تاکہ غیر سنجیدہ اور غیر مناسب انداز سے عوام کے جذبات کو ٹھیس نہ پہنچے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ میڈیا اور پولیس دونوں کو حساس اور ذمہ دار رپورٹنگ کے اصول اپنانے چاہیے، خاص طور پر انسانی جان یا المناک واقعات کے سلسلے میں، تاکہ افواہوں اور غیر ضروری تنازع سے بچا جا سکے۔
واقعے کے بعد سوشل میڈیا پر اس پوڈکاسٹ کلپ پر مختلف آرا کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ شمع جونیجو نے لکھا کہ ایک حاضر سروس پولیس افسر اپنی تشہیر کے لیے پوڈکاسٹ کر رہی ہوتی ہے کہ اچانک ایک کال آتی ہے۔ وہ ایف آئی آر درج کرنے اور کیس حل کرنے کے لیے وہاں سے چلی جاتی ہے۔ صرف ایک گھنٹے میں وہ واپس اسٹوڈیو آ جاتی ہیں اور مسکراتے ہوئے اور بے حسی سے کہتی ہے ’قتل ہو گیا تھا‘۔
علی نامی صارف نے لکھا کہ کسی مہذب معاشرے میں ایک پولیس افسر یہ ناٹک کرتی تو اسے نا صرف برطرف کیا جاتا بلکہ جیل ہو جاتی۔ انہوں نے کہا کہ ایک گھنٹے میں ایف آئی آر نہیں لکھی جاتی انہوں نے نا صرف قاتل پکڑ لیا بلکہ وجہ قتل اور ساری کہانی میڈیا پر بتا دی عدالتیں جس کام میں سالوں لگا دیتی ہیں انہوں نے ایک گھنٹے میں کر دیا۔
یہ ویڈیو کلپ دیکھ کر سینیٹر روبینہ خالد کو بھی یقین نہیں آیا کہ یہ ویڈیو حقیقی ہے انہوں نے سوال کیا کہ کیا یہ سچ ہے؟
ایک صارف نے سوال کیا کہ یہ کسی ڈرامے کی شوٹنگ ہو رہی ہے؟
سینیٹر عون عباس بپی نے لکھا کہ مسخروں کے ہاتھ میں ملک آ چکا ہے۔ ایک سٹیج سجا ہوا ہے جہاں اوپر سے نیچے تک سستے ایکٹر بھرے گئے ہیں۔ وزیر ہوں یا مشیر، جج ہوں، پولیس یا بیوروکریٹ سب اپنی اپنی ڈرامےبازی میں مصروف ہیں۔ انہوں نے تنقید کرتے ہوئے لکھا کہ یہ محترمہ تو ایکٹنگ میں مریم بی بی کے بھی نمبر کاٹ رہی ہیں۔
طارق متین نے سوال کیا کہ یہ شہر بانو نقوی صاحبہ کیا دوران ڈیوٹی پوڈکاسٹ میں تشریف فرما تھیں؟











