اسلام آباد(روشن پاکستان نیوز) بھارت کے معروف شاعر و نغمہ نگار جاوید اختر اور اسلامی اسکالر مفتی شمائل ندوی کے درمیان خدا کے وجود کے موضوع پر ایک فکری اور علمی مباحثہ کنسٹی ٹیوشن کلب، نئی دہلی میں ہوا، جس نے نہ صرف تقریب میں موجود افراد بلکہ سوشل میڈیا پر بھی شدید ردعمل کو جنم دیا۔
تفصیلات کے مطابق تقریباً دو گھنٹے جاری رہنے والے اس مباحثے کی میزبانی صحافی سوربھ دویدی نے کی، اور اس کا عنوان تھا “کیا خدا موجود ہے؟”۔ مباحثے میں فلسفہ، اخلاقیات، سائنس اور انسانی تجربات کے موضوعات پر گفتگو کی گئی۔
مباحثے کے دوران جاوید اختر نے ایک قادر مطلق اور مہربان خدا کے تصور پر سوال اٹھاتے ہوئے انسانی مصائب، خصوصاً غزہ میں جاری جنگ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ایک باقدرت خدا پر ایمان کیسے قائم رکھا جا سکتا ہے جبکہ بچوں کی ہلاکتیں اور انسانی دکھ روزمرہ کی حقیقت ہیں۔
جاوید اختر نے کہا کہ اگر خدا ہر جگہ موجود اور قادر مطلق ہے تو وہ غزہ میں بھی موجود ہے، ایسے دکھ دیکھ کر مہربان خدا کے وجود کو قبول کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔
ان کے اس بیان پر بعض مسلم حلقوں میں سخت ردعمل سامنے آیا، جہاں کچھ نے انہیں بے حس اور اشتعال انگیز قرار دیا، جبکہ دیگر نے ان کے حق میں موقف اختیار کیا کہ مذہبی عقائد پر سوال اٹھانا اخلاقی اور فکری دلیل کے دائرے میں آتا ہے۔
مفتی شمائل ندوی نے جواب میں انسانی آزاد مرضی پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ظلم و تشدد کے اعمال انسانی فیصلوں کا نتیجہ ہیں، خدائی ارادے کا نہیں۔ انہوں نے کہا کہ خالق نے برائی کے امکانات پیدا کیے، تاہم وہ خود برائی کا منبع نہیں ہے۔
شمائل ندوی نے مزید وضاحت کی کہ سائنس اور مذہب مختلف شعبوں میں کام کرتے ہیں، سائنس مادی عمل کی وضاحت کرتی ہے، لیکن کائنات کے وجود جیسے مابعد الطبیعی سوالات کا جواب نہیں دے سکتی، نصوصِ مقدسہ ان لوگوں کو قائل نہیں کر سکتیں جو وحی کو علم کا معتبر ذریعہ نہیں مانتے۔
ایک موقع پر مفتی شمائل ندوی نے جاوید اختر کو چیلنج کیا کہ نامکمل علم کے باعث خدا کے وجود کو انکار کرنا جائز نہیں۔ جاوید اختر نے جواب دیا کہ انہی غیر یقینی حالات کو وہ اپنے موقف کی بنیاد قرار دیتے ہیں، اور فلسفی یا سائنسدان بھی حتمی علم کا دعویٰ نہیں کرتے۔
مزید پڑھیں: نوجوان شاہینوں نے بھارت کا غرور خاک میں ملا دیا، پاکستان کرکٹ کے میدانوں پر برسوں بھارت پر حاوی رہا
مباحثے میں عقیدہ اور ایمان کے فرق پر بھی بات ہوئی۔ نغمہ نگار نے کہا کہ عقیدہ ثبوت اور منطق پر مبنی ہونا چاہیے، جبکہ ایمان بغیر ثبوت قبولیت کا تقاضا کرتا ہے، جو تنقیدی سوچ کو محدود کر سکتا ہے۔
اختر نے کہا کہ اخلاقیات ایک انسانی نظام ہے جو سماجی نظم قائم رکھنے کے لیے بنایا گیا، نہ کہ فطرت میں سرایت شدہ قانون، جس کے جواب میں شمائل ندوی نے سوال کیا کہ کیا اخلاقی معیار اکثریت کے فیصلے پر چھوڑ دینا درست ہے، اور کیا ناانصافی قابل قبول ہو جاتی ہے صرف اس لیے کہ زیادہ لوگ اسے درست سمجھتے ہیں؟
تیز اور فکری گہرائی سے بھرپور اس مباحثے نے سوشل میڈیا پر وسیع بحث چھیڑ دی ہے اور عوامی زندگی میں مذہبی عقیدہ، سیکولر منطق اور اخلاقی ذمہ داری کے درمیان موجود کشمکش کو اجاگر کیا ہے۔











