تحریر: ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی
صوبہ خیبر پختونخوا کی سیاست ہمیشہ مرکز اور صوبے کے تعلقات کے گرد گردش کرتی رہی ہے۔ 18ویں ترمیم کے بعد صوبائی خودمختاری بڑھی، مگر وفاق اور صوبے کے درمیان سیاسی تناؤ ختم نہ ہو سکا۔ صوبہ خیبرپختونخوا خاص طور پر سیکیورٹی، مالی وسائل اور بارڈر مینجمنٹ کے سوالات کے ساتھ مرکز کی پالیسیوں کا اثر محسوس کرتا رہا ہے۔ اسی پس منظر میں وزیراعلیٰ کا 41 ویں کابینہ اجلاس سے ویڈیو لنک کے ذریعے جاری کردہ پالیسی بیانات اہمیت رکھتے ہیں۔
وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا نے عمران خان اور ان کی اہلیہ کی قید و حبسِ تنہائی پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں بڑے رہنماؤں کی نظربندی یا قید کوئی نئی بات نہیں۔ بھٹو سے لے کر مشرف دور کے سیاسی قیدیوں تک، ریاستی طاقت کا یہ استعمال بارہا موضوعِ بحث بنتا رہا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی بارہا یہ موقف اختیار کر چکی ہیں کہ نظر بندی ہو یا قید، اس میں بنیادی انسانی عزت، صحت اور ملاقات کے حق کو یقینی بنانا ریاست کی اولین ذمہ داری ہے۔
اسی تناظر میں خیبرپختونخوا کی صوبائی حکومت کا مؤقف اپنی جگہ ایک سیاسی ردعمل بھی رکھتا ہے اور انسانی حقوق کے اصولوں سے بھی جڑا ہے۔
وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا نے وفاقی وزرا کی پریس کانفرنس کو غیر انسانی اور غیر اخلاقی قرار دیا ہے۔ پاکستان میں پریس کانفرنسیں اکثر سیاسی کشمکش میں جلتی پر تیل چھڑکنے کا کام کرتی رہی ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ زبان کی سختی سیاسی دراڑوں کو مزید گہرا کرتی ہے۔ ایسے سیاسی اور غیر ذمہ فارانی بیانات عوامی جذبات کو بھڑکانے کا سبب بنتے ہیں اور سیاسی ڈائیلاگ کے دروازے ہمیشہ کے لیے بند کرتے ہیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سیاسی محاذ آرائی جتنی بڑھے، انتظامی نظام اتنا متاثر ہوتا ہے۔ صوبائی و وفاقی ہم آہنگی کمزور ہو تو پالیسی عمل درآمد بھی متاثر ہوتا ہے۔
صوبائی حکومت نے ایک بار پھر گڈ گورننس روڈ میپ پر زور دیا ہے۔ ٹیکنالوجی کے ذریعے سرکاری اجلاسوں میں آن لائن شرکت کی ہدایت ایک عملی اور وقت کی ضرورت کے مطابق فیصلہ ہے۔ دنیا بھر میں ای گورننس مؤثر انتظامی ماڈل کے طور پر اُبھر رہی ہے۔
آن لائن اجلاسوں سے سفری اخراجات کم ہوتے ہیں، وقت کی بچت ہوتی ہے، دور دراز اضلاع کے افسران بہتر انداز میں شریک ہوتے ہیں۔ یہ فیصلہ مجموعی طور پر ایک مثبت قدم کہا جا سکتا ہے۔
خیبرپختونخوا میں صرف ایٹا کے ذریعے بھرتیاں کرنے کی ہدایت اس تناظر میں اہم ہے کہ پاکستان میں ٹیسٹنگ ایجنسیوں پر شکوک و شبہات کی تاریخ کافی لمبی ہے۔ پچھلے ایک عشرے میں کئی نجی ٹیسٹنگ ادارے شفافیت کے سوالات کی زد میں رہے۔
سرکاری بھرتیوں کو ایک ہی نظام کے تحت لانا، اگر سخت مانیٹرنگ ہو تو شفافیت بڑھا سکتا ہے۔ تاہم اصل مسئلہ طریقہ کار کا سخت نفاذ ہے، ورنہ ادارہ بدلنے سے نتائج ہمیشہ نہیں بدلتے۔
قومی مالیاتی کمیشن پاکستان کے وفاقی ڈھانچے کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔ خیبر پختونخوا کا دیرینہ مطالبہ رہا ہے کہ ضم شدہ اضلاع کا حصہ این ایف سی میں شامل کیا جائے۔ 1375 ارب روپے کا حوالہ اسی اہم مسئلے سے جڑا ہے۔ اگر این ایف سی میں یہ حصہ شامل نہیں ہوتا تو صوبہ خیبرپختونخوا ترقیاتی منصوبوں، سیکیورٹی اخراجات اور قبائلی اضلاع کی بحالی میں ہمیشہ مشکلات محسوس کرے گا۔ یہ تاریخی مسئلہ آج بھی حل نہ ہو سکا۔
طورخم بارڈر اور چترال کے آرندو بارڈر کی بندش سے انسانی اور معاشی بحران بھی جنم لے رہا ہے۔ طورخم بارڈر کا 55 روز بند رہنا ایک سنگین انتظامی، معاشی اور انسانی مسئلہ ہے۔ بارڈر بندش کی تاریخ بتاتی ہے کہ اس کا سب سے بڑا بوجھ عام لوگ اٹھاتے ہیں، چاہے وہ ڈرائیور ہوں یا خاندان والے جو بارڈر کے دونوں طرف پھنس جاتے ہیں۔
وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کی ضلعی انتظامیہ کو کھانے پینے اور ضروری سہولیات فراہم کرنے کی ہدایت یقیناً فوری ریلیف کا اہم اقدام ہے، مگر اصل حل بارڈر پالیسی میں دونوں حکومتوں کی مشترکہ حکمت عملی ہے۔
خیبر پختونخوا میں سیکیورٹی مسائل تاریخی ہیں۔ ضلعی انتظامیہ کو بلٹ پروف گاڑیاں فراہم کرنے کا فیصلہ حالات کے مطابق ہے، مگر اس کے ساتھ ایک یہ سوال بھی ضرور اٹھتا ہے کہ کیا یہ خرچ گڈ گورننس اور کفایت شعاری کے دعووں سے ہم آہنگ ہے؟
اگر حالات واقعی ایسے ہیں کہ سول افسران کی زندگیوں کو شدید خطرات لاحق ہیں، تو یہ اقدام ضروری ہے، لیکن اس کے ساتھ بہتر کمانڈ اینڈ کنٹرول، سیکیورٹی پلاننگ اور انٹیلیجنس نظام بھی ضروری ہیں۔
وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا کے بیانات اور ہدایات سیاسی ردعمل، انتظامی اصصلاحات اور صوبائی حقوق کی لڑائی وفاق کے ساتھ تعلقات خراب کرنے کا کا سبب بننے کا خدشہ ہے۔
یہ ایک ایسا لمحہ ہے جہاں وفاق اور صوبے دونوں کو تحمل، مکالمے اور آئین کی روح کو سامنے رکھ کر آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔
گڈ گورننس، شفاف بھرتیاں، ٹیکنالوجی کا استعمال اور مالی حقوق کے مطالبات یہ سب درست فیصلے ہیں۔
لیکن سیاسی ماحول کی کشیدگی اس راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ یہ سب کام حقیقی اصلاحات امن، تعاون اور ادارہ جاتی ہم آہنگی کے بغیر ممکن نہیں۔ امید ہے کہ وفاق اور صوبہ خیبرپختونخوا دونوں ملکی مفاد کی خاطر ایک میز پر بیٹھنے کے لیے رضامند ہونگے۔ ان شا الله
*ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی کا تعلق خیبرپختونخوا چترال سے ہے آپ حالات حاضرہ، علم ادب، لسانیات اور تحقیق و تنقیدی موضوعات پر لکھتے ہیں ان سے اس ای میل rachitrali@gmail.com اور واٹس ایپ نمبر 03365114595 پر کیا جاسکتا ہے ۔











