(۰۴ دسمبر یوم پیدائش پر خصوصی تحریر)
تحریر: ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی
برصغیر کی تحریکِ آزادی کے کئی کردار ایسے ہیں جن کی جدوجہد کا محور قومی سیاسی حقوق نہیں بلکہ مذہبی غیرت اور عقیدے کا تحفظ تھا۔ غازی علم دین شہید انہی کرداروں میں وہ نام ہے جس نے نوآبادیاتی دور میں مسلمانوں کی اجتماعی نفسیات، غیرتِ ایمانی اور ناموسِ رسالتﷺ کے تصور کو ایک نئی سمت دی۔ بیسویں صدی کے ابتدائی ربع میں لاہور سیاسی، سماجی اور فکری لحاظ سے ایک زندہ شہر تھا۔ اس ماحول میں پروان چڑھنے والا ایک سادہ نوجوان جب تاریخ کے ایک نازک موڑ پر سامنے آتا ہے تو وہ ایک فرد نہیں بلکہ ایک علامت بن جاتا ہے۔
غازی علم دین 1908 میں لاہور کے قدیم محلے کوچہ چابک سواراں میں پیدا ہوئے۔ ترکھان گھرانے سے تعلق رکھنے والے یہ نوجوان مذہبی ماحول میں تربیت پاتے رہے۔ محلے کی مسجد اور چھوٹے سے مدرسے میں تعلیم حاصل کی۔ عملی زندگی نجارت کے پیشے سے شروع ہوئی، جو ان کے خاندان کا ورثہ تھا۔ ان کا سلسلہ نسب اُس بزرگ بابا لہنو سے جا ملتا ہے جس نے جہانگیر کے دور میں اسلام قبول کیا اور بعد ازاں اپنی استقامت اور روحانیت کے باعث احترام کا مقام پایا۔ اس پس منظر نے علم دین کی زندگی میں ایک نظریاتی اور روحانی رنگ بھی شامل کیا۔
1920کے بعد برصغیر میں مذہبی اور سیاسی کش مکش بڑھ چکی تھی۔ “رنگیلا رسول” کے نام سے شائع ہونے والی گستاخانہ کتاب نے مسلمانوں کے جذبات میں آگ لگا دی۔ راج پال نامی ناشر کے خلاف اجتماعی احتجاج صرف مذہبی نہیں بلکہ سیاسی مزاحمت بھی تھی۔ مسلمان رہنما اور عوام دونوں چاہتے تھے کہ برطانوی حکومت قانون کے مطابق سزا دے، مگر عدالتی فیصلوں اور حکومتی رویے نے یہ تاثر پختہ کیا کہ انصاف کا دروازہ مسلمانوں پر بند ہے۔
یہ وہ لمحہ تھا جب اجتماعی غم و غصہ ایک فرد کے اندر جذب ہو کر عملی قدم کی صورت اختیار کرتا ہے۔ غازی کی اپنے رشتہ داروں کوجو وصیت فرمائی وہ قابل غور ہے۔
” میرے تختہ دار پر چڑھ جانے سے وہ بخشے نہیں جائیں گے‘ بلکہ ہر ایک اپنے اعمال کے مطابق جزا اور سزا کا حق دار ہوگا اور انہیں تاکید کی کہ وہ نماز نہ چھوڑیں اور زکوٰة برابر ادا کریں اور شرعِ محمدی پر قائم رہیں”۔
راج پال کے خلاف کیے گئے ابتدائی حملے ناکام رہے۔ اس کے باوجود یہ بات واضح ہو گئی کہ لاہور کے مسلمانوں میں شدید بے چینی پائی جاتی ہے اور یہ معاملہ عدالتوں یا حکومتی کاروائی سے حل ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ اس پس منظر میں علم دین کا قدم اچانک نہیں بلکہ ایک تاریخی تسلسل کی کڑی تھا۔ مذہبی غیرت، عدالتی مایوسی اور مسلمانوں کی اجتماعی تذلیل نے اس نوجوان کو اس جانب دھکیل دیا۔
جب علم دین نے راج پال کو اس کی دکان پر للکارا تو یہ ایک جذباتی حملہ نہیں تھا بلکہ شعور کے ساتھ کیا گیا فیصلہ تھا۔ گرفتاری کے بعد ان کا پُرسکون رویہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ اس اقدام کو مذہبی فریضہ سمجھتے تھے۔
مقدمہ اس زمانے کے سیاسی حالات کی علامت بن گیا۔ ان کے وکیل سلیم بارایٹ لا نے قانونی نکات سے بھرپور دفاع کیا، بعد ازاں محمد علی جناح اور بیرسٹر فرخ حسین نے ہائی کورٹ میں اپیل کی لیکن نوآبادیاتی نظام نے اس اپیل کو مسترد کر دیا۔ اس مرحلے پر مسلمان قیادت کو اندازہ ہوا کہ عدالتیں انصاف دینے کے لیے تیار نہیں اور ایک سیاسی پیغام دیا جا رہا ہے۔
غازی علم دین کی مسکراہٹ کے ساتھ سزا سن کر سنبھل جانا اس پورے مقدمے کا سب سے نمایاں لمحہ ہے۔ ان کا یہ کہنا کہ ”میں یہی چاہتا تھا“ اس بات کی مثال ہے کہ یہ مقدمہ صرف قتل کا نہیں بلکہ عقیدے اور عزتِ رسول کے تصور کا تھا۔
31اکتوبر 1929 کو آپ کو میانوالی جیل میں پھانسی دے دی گئی۔ جسدِ خاکی کی حوالگی میں تاخیر نے حالات کو مزید حساس بنا دیا۔ علامہ اقبال، مولانا ظفر علی خان، سر فضل حسین، اور دیگر رہنماؤں نے دباؤ ڈال کر میت کی واپسی کو ممکن بنایا۔
جب جسدِ خاکی لاہور پہنچا تو لاکھوں افراد کا اجتماع صرف ایک جنازہ نہیں تھا۔ یہ مسلمانوں کی اجتماعی غیرت اور نوآبادیاتی جبر کے خلاف خاموش احتجاج تھا۔ لاہور کی تاریخ میں شاید ہی کوئی دوسرا جنازہ اتنے بڑے پیمانے پر ہوا ہو۔ اقبال نے شہید کی تدفین میں شرکت کی اور ان کا وہ مشہور جملہ تاریخ کا حصہ بن گیا کہ ”یہ ترکھان کا لڑکا ہم سب پڑھے لکھوں سے بازی لے گیا“۔
یہ جملہ اس نوجوان کے روحانی مرتبے، اس کی ایمانی جسارت اور مسلمانوں کے دلوں میں اس کی عظمت کو واضح کرتا ہے۔
غازی علم دین شہید کا واقعہ کئی لحاظ سے اہمیت رکھتا ہے۔ یہ مسلمانوں کی دینی غیرت کے بیانیے میں بنیادی حوالہ بنا۔ اس نے برصغیر میں قانونِ توہینِ رسالت کے لیے تحریک کی بنیاد رکھی۔ نوآبادیاتی عدالتی نظام کے یکطرفہ رویے کو بے نقاب کیا۔ اقبال، مولانا ظفر علی خان اور قائد اعظم جیسے رہنماؤں کا متفقہ موقف مسلمانوں کی وحدت کا مظہر بنا۔ مسلمانوں کی اجتماعی نفسیات نے پہلی مرتبہ یہ محسوس کیا کہ مذہبی شناخت ہی ان کی سیاسی طاقت ہے۔
غازی علم دین شہید کی شخصیت تاریخ میں ایک جذباتی کردار نہیں بلکہ فکری اور نظریاتی رجحان کی نمائندگی کرتی ہے۔ ان کا عمل مذہبی غیرت کا اظہار ضرور تھا لیکن اس کے پیچھے وہ تاریخی محرکات موجود تھے جنہوں نے پورے برصغیر کے مسلمانوں میں یہ احساس پیدا کیا کہ عزتِ رسولﷺ کے معاملے میں وہ کسی سمجھوتے پر آمادہ نہیں۔
ان کی شہادت نے ایک سادہ کاریگر کو عہد ساز شخصیت بنا دیا۔ آج بھی ان کا مزار لاہور میں ایک تاریخی نشان ہے جو اس دور کی مذہبی و سماجی کش مکش کی یاد دلاتا ہے۔











