پیر,  01 دسمبر 2025ء
پاکستان میں ڈیجیٹل گورننس کا تاریخی پس منظر

تحریر: ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی

پاکستان میں ڈیجیٹل پالیسیوں کی تشکیل کا عمل 2000 کی دہائی کے آغاز میں شروع ہوا جب حکومت پاکستان نے ٹیلی کمیونیکیشن سیکٹر کو نجی اداروں کے لیے کھولا۔ پی ٹی اے کو 1996 میں ریگولیٹری ادارے کے طور پر قائم کیا گیا، مگر حقیقی معنوں میں اس کی طاقت 2000 کے بعد بڑھی جب انٹرنیٹ عام ہوا، موبائل فون عام صارف تک پہنچا اور سوشل میڈیا نے نئی معاشرتی حرکیات پیدا کیں۔
سن 2016 میں الیکٹرانک کرائمز ایکٹ (PECA) منظور ہوا، جس نے ڈیجیٹل جرائم کی روک تھام، آن لائن ہراسگی، ڈیٹا پروٹیکشن اور سائبر سیکیورٹی کے لیے قانون سازی کی بنیاد رکھی۔ اسی قانون کے تحت صارفین کے ڈیٹا کے تحفظ، غیر مجاز رسائی اور پرائیویسی کی خلاف ورزی پر واضح سزائیں مقرر ہیں۔
اس تاریخی پس منظر کے ساتھ پی ٹی اے وقتاً فوقتاً مختلف پالیسی گائیڈ لائنز جاری کرتا رہا ہے تاکہ بدلتی ٹیکنالوجی اور سیکیورٹی خطرات کو سامنے رکھتے ہوئے ڈیجیٹل اسپیس کو محفوظ رکھا جا سکے۔
28 نومبر 2025 کی جاری کردہ تازہ ہدایت، جو سوشل میڈیا گروپس کی سیکیورٹی اور ڈیٹا پروٹیکشن سے متعلق ہے، موجودہ ملکی سیکیورٹی صورتحال اور آن لائن خطرات کے پیش نظر سامنے آئی ہے۔ عالمی سطح پر بھی ڈیٹا کے تحفظ سے متعلق کڑے قوانین سامنے آ رہے ہیں۔ یورپی یونین کا جی ڈی پی آر ہو یا خلیجی ممالک کی سائبر ریگولیشنز، ہر جگہ توجہ شہریوں کے ڈیٹا کو محفوظ بنانے پر ہے۔
پاکستان میں پچھلے چند برسوں میں ایسے کئی واقعات سامنے آئے جن میں بیرونی عناصر نے سوشل میڈیا گروپس کے ذریعے افواہیں پھیلائیں، عوامی رائے پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی یا صارفین کے ڈیٹا تک غیر مجاز رسائی حاصل کی۔ یہی وہ پس منظر ہے جس نے پی ٹی اے کو اس مخصوص ہدایت جاری کرنے پر مجبور کیا۔
غیر ملکی ممبران کا اندراج اور ان کا اخراج کے لیے قوانین وضع کیے ہیں۔ یہ قانون سب سے زیادہ توجہ طلب ہے۔ حکومت سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے پاکستانی ایڈمنز کو پابند کر رہی ہے کہ وہ غیر ملکی اراکین کو گروپس سے نکال دیں۔ اس کے فوائد یہ ہو سکتے ہیں کہ بیرونی اثر و رسوخ کی روک تھام ہوگی، ڈیٹا کے بہاؤ کو پاکستان کی حدود میں محدود رکھا جائے گا، سیکیورٹی اداروں کے لیے مانیٹرنگ کو آسان بنایا جائے گا لیکن اس کے ساتھ ساتھ چند فکری اور عملی سوالات بھی اٹھتے ہیں جن میں چند سوالات یہ ہیں کہ کیا ہر گروپ میں غیر ملکیوں کی موجودگی واقعی خطرہ ہے؟ کیا علمی، ثقافتی یا بین الاقوامی روابط رکھنے والے گروپس پر بھی یہی شرط لاگو ہوگی؟ کیا اس اقدام سے آن لائن آزادی اور عالمی رابطوں پر منفی اثر نہیں پڑے گا؟
پی ٹی اے کا مؤقف ہے کہ غیر ملکی ممبران کے گروپس میں ہونے سے پاکستانی صارفین کا ڈیٹا بیرون ملک سرورز تک جا سکتا ہے۔ یہ بات کسی حد تک درست بھی ہے، کیونکہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کا ڈیٹا بنیادی طور پر عالمی نیٹ ورکس میں گردش کرتا ہے۔ لیکن گروپ کے اندر شیئر کی گئی معلومات کی حساسیت مختلف ہو سکتی ہے۔ جائزہ لیے بغیر blanket policy نافذ کرنا مستقبل میں عوامی اعتماد کو متاثر کرنے کا سبب بنے گا۔ قانونی شق PECA 2016 دفعہ 21 کا اطلاق سخت اقدام ہوسکتا ہے۔ دفعہ 21 عام طور پر ہراسگی، غیر مجاز ڈیٹا شیئرنگ اور پرائیویسی کی خلاف ورزی سے متعلق ہے۔ اسے گروپ ایڈمنز پر لاگو کرنا ایک سخت قدم ہے۔ اس سے ایک طرف احتیاط بڑھے گی مگر دوسری طرف ایڈمنز میں خوف بھی پیدا ہو سکتا ہے کہ کہیں معمولی غلطی بھی قانونی گرفت کا باعث نہ بن جائے۔
اس پالیسی کے ممکنہ مثبت اثرات بھی ہیں جن میں سرفہرست آن لائن گروپس کی بہتر نگرانی، جعلی اکاؤنٹس اور بیرونی پروپیگنڈہ نیٹ ورکس کی نشاندہی میں آسانی، حساس اطلاعات کے غیر ارادی اخراج میں کمی اور ملکی ڈیجیٹل سیکیورٹی کے مضبوط ہونے کا امکان بھی ہیں۔
اس پالیسی پر کئی لوگ اور ماہرین تنقید بھی کررہے ہیں اور آن لائن آزادی کا سوال بھی اٹھارہے ہیں۔ پاکستان میں پہلے ہی انٹرنیٹ قوانین پر یہ تنقید موجود رہی ہے کہ وہ کہیں زیادہ سخت ہیں۔ اس نئی ہدایت سے سوشل میڈیا گروپس کی خودمختاری مزید محدود ہو سکتی ہے۔ صارفین کا کہنا ہے کہ اس پالیسی سے عالمی رابطوں پر اثر پڑے گا۔ کئی گروپس تعلیمی، تحقیقی، ادبی یا پیشہ ورانہ سطح پر غیر ملکی اراکین کے ساتھ مفید روابط رکھتے ہیں۔ انہیں بھی اس حکم کے باعث نقصان پہنچ سکتا ہے ۔
حکومتی نگرانی کی بڑھتی ہوئی حدود کے بارے میں کافی خدشات موجود ہے۔یہ خدشہ موجود ہے کہ اس طرح کی پالیسیوں کے ذریعے ریاست آن لائن اسپیس کو حد سے زیادہ کنٹرول کرنے کی طرف بڑھ سکتی ہے۔
پالیسی کا مقصد درست ہے لیکن سیکیورٹی اور ڈیٹا پروٹیکشن بھی انتہائی ضروری ہے۔ مگر بہتر یہی ہوتا کہ حکومت جس قسم کے گروپس زیادہ حساس ہیں، صرف انہیں لازماً اس ہدایت کا پابند کرتی، تمام سوشل میڈیا ایڈمنز کو blanket پابندی کے بجائے واضح زمروں میں تقسیم کرتی، عوام کو ڈیجیٹل لٹریسی اور پرائیویسی پروٹیکشن سے متعلق آگاہی دیتی، اس فیصلے سے پہلے اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کرنی بھی ضروری تھی۔
پی ٹی اے کی تازہ ہدایت پاکستان کی بڑھتی ہوئی ڈیجیٹل سیکیورٹی چیلنجز کا نتیجہ ہیں۔ اس کے ذریعے حکومت نے ایک کوشش کی ہے کہ بیرونی اثرات کو کم کیا جائے اور صارفین کے نجی ڈیٹا کو محفوظ رکھا جائے۔ تاہم اس پالیسی کے مختلف پہلو ایسے بھی ہیں جو بحث اور نظرثانی کے متقاضی ہیں۔ ایک کامیاب ڈیجیٹل پالیسی وہی ہوتی ہے جو سیکیورٹی اور آزادی دونوں پہلوؤں کے درمیان متوازن راستہ اختیار کرتی ہے۔ موجودہ ہدایت اسی توازن کے امتحان کا آغاز ہے۔

* رحمت عزیز خان چترالی کا تعلق چترال خیبرپختونخوا سے ہے، اردو، کھوار اور انگریزی میں لکھتے ہیں۔ آپ کا اردو ناول ”کافرستان”، اردو سفرنامہ ”ہندوکش سے ہمالیہ تک”، افسانہ ”تلاش” خودنوشت سوانح عمری ”چترال کہانی”، پھوپھوکان اقبال (بچوں کا اقبال) اور فکر اقبال (کھوار) شمالی پاکستان کے اردو منظر نامے میں بڑی اہمیت رکھتے ہیں، کھوار ویکیپیڈیا کے بانی اور منتظم ہیں، آپ پاکستانی اخبارارت، رسائل و جرائد میں حالات حاضرہ، ادب، ثقافت، اقبالیات، قانون، جرائم، انسانی حقوق، نقد و تبصرہ اور بچوں کے ادب پر پر تواتر سے لکھ رہے ہیں، آپ کی شاندار خدمات کے اعتراف میں آپ کو بے شمار ملکی و بین الاقوامی اعزازات، طلائی تمغوں اور اسناد سے نوازا جا چکا ہے۔کھوار زبان سمیت پاکستان کی چالیس سے زائد زبانوں کے لیے ہفت پلیٹ فارمی کلیدی تختیوں کا کیبورڈ سافٹویئر بنا کر عالمی ریکارڈ قائم کرکے پاکستان کا نام عالمی سطح پر روشن کرنے والے پہلے پاکستانی ہیں۔ آپ کی کھوار زبان میں شاعری کا اردو، انگریزی اور گوجری زبان میں تراجم کیے گئے ہیں ۔

مزید خبریں