خصوصی فیچر
تحریر: ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی
rachitrali@gmail.com
مملکت خداداد پاکستان کے قیام کے بعد دارالحکومت کراچی رہا، لیکن بڑھتی آبادی، معاشی دباؤ اور جغرافیائی پیچیدگیوں نے نئے دارالحکومت کی ضرورت پیدا کی۔ 1958 میں جنرل ایوب خان نے راولپنڈی کے قریب پوٹھوہار کے میدان میں نئے شہر کے قیام کا فیصلہ کیا۔ 14 اگست 1967 کو دارالحکومت اسلام آباد منتقل ہوا اور 1968 میں مرکزی حکومت مکمل طور پر یہاں منتقل کر دی گئی۔
اسلام آباد ایک منصوبہ ساز شہر کے طور پر تعمیر ہوا جس میں شہری منصوبہ بندی، محفوظ رہائش، سبزہ زار، تعلیمی و انتظامی زون اس کے بنیادی خدوخال تھے۔ اسے وفاقی دارالحکومت کے طور پر اس لیے منتخب کیا گیا کہ یہ کسی ایک نسلی، لسانی یا صوبائی اکثریت کے زیر اثر نہ ہو۔
اسلام آباد کا موجودہ رقبہ صوبہ پنجاب اور صوبہ خیبر پختونخوا سے حاصل کردہ زمین پر مشتمل ہے۔ اس خطے کی شناخت پشتون، پوٹھوہاری، گوجر، دھنیال اور کشمیری آبادیوں کے ایک تاریخی ملاپ سے بنتی ہے۔ یہ علاقہ بدھ مت، ہندو تہذیب اور مغلیہ ورثے کا حامل بھی رہا ہے۔ اسی وجہ سے اسلام آباد ہمیشہ ایک “وفاقی علامت” سمجھا جاتا رہا ہے، نہ کہ صوبائی اکائی۔
اسلام آباد کو صوبہ بنانے کا حکومتی فیصلے کے تناظر کئی سوالات جنم لے رہے ہیں۔ موجودہ حکومت نے اسلام آباد کو پاکستان کا نیا صوبہ بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ فیصلہ کئی اہم سیاسی و انتظامی پہلو رکھتا ہے جن کا تجزیہ انتہائی ضروری ہے۔
اس سلسلے میں سب سے پہلے آئینی پہلووں کو مڈ نظر رکھنا ہوگا۔ اسلام آباد اس وقت وفاقی دارالحکومت کے طور پر آئین کے آرٹیکل 1(2)(b) کے تحت ایک الگ وفاقی علاقہ ہے۔ اسے صوبے کا درجہ دینے کے لیے آرٹیکل 1 میں ترمیم کرنی ہوگی۔ اسلام آباد ہائی کورٹ، پولیس اور مقامی حکومتوں کا نیا ڈھانچہ تشکیل دینا ہوگا۔ اختیارات کی واضح تقسیم کرنی ہوگی۔ اِن سب کے لیے دو تہائی اکثریت درکار ہے۔ یہ تبدیلی ملک کے وفاقی ڈھانچے میں بنیادی نوعیت کی ہوگی۔
سیاسی خدشات کے ساتھ ساتھ اسلام آباد کے رہائشیوں کے لیے کئی فوائد بھی ہیں۔ فی الحال اس فیصلے کو دو زاویوں سے دیکھا جا رہا ہے۔ پہلا فائدہ یہ ہے کہ اسلام آباد کے شہریوں کو مکمل صوبائی حقوق ملیں گے۔ قانون سازی کا اختیار بڑھ جائے گا۔ مالیاتی خودمختاری بہتر ہوگی۔ پولیس، انتظامیہ اور بلدیاتی اداروں میں جواب دہی مضبوط ہوسکے گی۔ایک منظم شہری صوبہ مقامی ترقی کا نیا ماڈل بن سکتا ہے۔
لیکن ان فوائد کے ساتھ ساتھ چند خدشات بھی ہیں۔ اسلام آباد کا وفاقی غیر جانبدار کردار متاثر ہونے کا امکان ہے۔ سیاسی جماعتوں میں نئے صوبے کی سیٹوں پر مفادات کی کشمکش پیدا ہوگی۔ پنجاب اور خیبر پختونخوا کی جانب سے زمینی سرحدوں اور پانی کے مسائل پر اختلافات ابھر سکتے ہیں۔اسلام آباد کے چھوٹے رقبے کے باوجود اس کے وفاقی کردار کو صوبائی رنگ دینا غیر ضروری بھی سمجھا جا رہا ہے۔ اسلام آباد کی آبادیاتی ساخت کی وجہ سے نئے صوبے کی بنیاد میں پیچیدگاں آسکتی ہیں۔ اسلام آباد پاکستان کا واحد علاقہ ہے جہاں پنجابی تقریباً 50 فیصد، پشتو 18 فیصد، اردو 15 فیصد، ہندکو، کشمیری، سرائیکی، بلتی، شینا،کھوار(چترالی ) اور دیگر زبانیں ایک ساتھ موجود ہیں۔ ایسے لسانی تنوع میں صوبائی سطح کی قانون سازی ایک محتاط حکمت عملی کی متقاضی ہے۔ اسلام آباد کا شہری انفراسٹرکچر مضبوط ہے، مگر دیہی علاقوں کی 133 سے زیادہ سوسائٹیاں اب بھی نیم دیہی طرز پر چل رہی ہیں۔ اس تضاد کو ختم کیے بغیر صوبہ بنانا انتظامی مسائل کو بڑھانے کا سبب بن سکتا ہے۔
اسلام آباد کی تعمیر کے وقت اس کا مقصد ایک غیر صوبائی دارالحکومت کا قیام تھا۔ زمین پنجاب اور خیبر پختونخوا دونوں سے لی گئی، مگر وفاق نے اسے ایک ’’دائرۂ اختیار‘‘ کے طور پر چلایا۔ کبھی بھی اسے ایک ’’صوبہ‘‘ بنانے پر غور نہیں کیا گیا، کیونکہ اس کا بنیادی کردار ایک قومی مرکز تھا۔
اسلام آباد کو صوبہ بنانا اس پورے تاریخی تصور کو بدل دے گا۔ یہ وہی صورتحال پیدا کر سکتا ہے جو بھارت میں دہلی کے حوالے سے کئی دہائیوں تک جاری رہی، جہاں مرکز اور صوبہ بااختیار ہونے کے معاملے پر مسلسل تنازع رہا۔ اب ایک آئینی سوال یہ ہے کہ کیا وفاقی دارالحکومت اور صوبہ ایک ساتھ رہ سکتے ہیں؟ پاکستان میں اس کی کوئی مثال نہیں۔ اگر اسلام آباد صوبہ بنتا ہے تو تین راستے ہو سکتے ہیں جن میں سرفہرست وفاق کو صوبے کے ماتحت بنانا ہوگا۔ یعنی وفاقی دارالحکومت کو اسی صوبے کے اندر رکھا جائے۔ اس سے مرکز اور صوبے کے اختیارات میں تضاد پیدا ہوگا۔
ایک نیا “فیڈرل زون” بنایا جائے (جیسے امریکہ میں واشنگٹن ڈی سی) میں موجود ہیں۔ چند کلومیٹر کا علاقہ وفاق کے زیر اختیار اور باقی صوبہ کیسے کے گا۔ وفاقی دارالحکومت کسی اور شہر میں منتقل کیا جائے یہ راستہ غیر حقیقت پسندانہ اور انتہائی مہنگا ہوگا۔ فی الحال موجودہ حکومت کے فیصلے میں ان پہلوؤں کی وضاحت موجود نہیں۔ سیاسی مبصرین کے نزدیک نئے صوبے کی تشکیل انتخابی سیاست میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ اسلام آباد کی تین قومی اسمبلی نشستیں بڑھ کر زیادہ ہو سکتی ہیں۔ صوبائی حکومت، گورنر، وزیراعلیٰ اور اسمبلی بننے سے سیاسی اثر و رسوخ میں اضافہ ہوگا۔ جبکہ انتظامی ماہرین کا خیال ہے کہ پہلے سے موجود ادارے جیسے سی ڈی اے، ایم سی آئی، ضلعی انتظامیہ، پولیس، ہاؤسنگ اتھارٹیز پہلے ہی اختیارات کی تقسیم کے مسئلے سے دوچار ہیں۔ نیا صوبہ بنانا ساختی مسئلے کو حل کرنے کے بجائے مزید بوجھ بڑھا سکتا ہے۔
اسلام آباد کو صوبہ بنانے کا فیصلہ محض ایک انتظامی ڈھانچے کی تبدیلی نہیں بلکہ پاکستان کے وفاقی نقشے کی تشکیل نو ہے۔ اس کے اثرات صرف دارالحکومت تک محدود نہیں رہیں گے بلکہ مرکز، صوبہ تعلقات، سیاست، آبادیاتی توازن، مالیاتی وسائل اور آئینی ڈھانچے پر بھی پڑیں گے۔
اسلام آباد کو صوبہ بنانے کا یہ معاملہ گہری مشاورت، آئینی اتفاق رائے اور زمینی حقائق کو سامنے رکھ کر طے ہونا چاہیے۔ اسلام آباد ایک تاریخی، تہذیبی اور وفاقی علامت ہے۔ اس علامت کو مضبوط بنانا ریاستی استحکام کے لیے ضروری ہے، مگر اس کی حیثیت بدلنے سے پہلے قومی سطح پر کھلی بحث ناگزیر ہے۔ اگر حکومت یہ قدم اٹھانے میں سنجیدہ ہے تو اسے سخت سوالوں کا واضح جواب دینا ہوگا یعنی اسلام آباد کا وفاقی کردار کیسے برقرار رہے گا؟ صوبائی ڈھانچے میں اختیارات کی تقسیم کیا ہوگی؟ شہری و دیہی آبادی کے مسائل کس طرح حل ہوں گے؟ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ کیا یہ تبدیلی واقعی عوام کی ضرورت ہے؟ یہ وہ چیدہ چیدہ نکات ہیں جن پر اسمبلی کے فلور پر بحث کیے بغیر صوبہ اسلام آباد کا قیام ایک ادھورا تجربہ بن سکتا ہے۔ امید ہے ارباب اختیار اس معاملے پر خود کو جنجھوڑنے کی زحمت گوارا کریں گے۔
*ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی کا تعلق خیبرپختونخوا چترال سے ہے آپ حالات حاضرہ، علم ادب، لسانیات اور تحقیق و تنقیدی موضوعات پر لکھتے ہیں ان سے اس ای میل rachitrali@gmail.com اور واٹس ایپ نمبر 03365114595 پر کیا جاسکتا ہے











