لاہور(روشن پاکستان نیوز) صدر مسلم لیگ (ن) نواز شریف نے لاہور میں ن لیگ کے نومنتخب اراکین اسمبلی سے ملاقات کی، جس میں ضمنی انتخابات کے نتائج، معاشی صورتحال اور حکومتی کارکردگی پر تفصیلی گفتگو ہوئی۔
اس موقع پر وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز بھی ان کے ہمراہ تھیں۔
نواز شریف نے اراکین کو الیکشن جیتنے پر مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ ضمنی الیکشن میں عوام نے کارکردگی کی بنیاد پر ن لیگ کو واضح کامیابی دی۔ ان کا کہنا تھا کہ ن لیگ نے نفرت، جھوٹ اور فساد کے بیانیے کو شکست دی ہے۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ ن لیگ دور میں مہنگائی کی شرح 3 فیصد تھی جبکہ پی ٹی آئی دور میں یہ بڑھ کر 39 فیصد تک جا پہنچی۔ ’’انہوں [عمران خان حکومت] نے ملک کی جو حالت کی ہے، اس کا خمیازہ پوری قوم آج بھی بھگت رہی ہے۔”
سابق وزیراعظم نے کہا کہ 2017 میں ملک ترقی کی راہ پر گامزن تھا، اور اگر ترقی کی وہ رفتار برقرار رہتی تو آج پاکستان کو آئی ایم ایف کی فکر نہ ہوتی۔
انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت کے اقدامات سے مہنگائی میں کمی آئی ہے اور ملک کو ڈیفالٹ سے نکال کر استحکام کی طرف لایا گیا ہے۔
نواز شریف نے ایک بار پھر پی ٹی آئی قیادت پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’’بانی پی ٹی آئی اکیلا مجرم نہیں، اسے لانے والے اس سے بھی بڑے مجرم ہیں۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ مخالفین کے دور میں میرٹ ختم تھا، ادارے کمزور ہوئے اور ’’ان کا بیانیہ فتنہ، فساد اور الزام تراشی کے سوا کچھ نہیں تھا‘‘۔
مزید پڑھیں: ن لیگ کو ووٹر کے بغیر الیکشن لڑنے کی عادت پڑ گئی ہے، چودھری پرویز الٰہی
ان کا مزید کہنا تھا کہ پنجاب میں غریبوں کے لیے ایک لاکھ 20 ہزار نئے گھروں کی تعمیر جاری ہے، مفت ادویات، مفت علاج، نئے اسپتال، طلبہ کو لیپ ٹاپس اور گرین بسوں کی فراہمی اس حکومت کی نمایاں کامیابیاں ہیں۔ ’’پنجاب میں امن و امان بہتر ہوا ہے اور لوگوں کا احساسِ تحفظ بڑھا ہے۔”
نواز شریف نے یہ بھی کہا کہ حکومت مذہبی تفریق کے بغیر عوامی فلاح کے منصوبے جاری رکھے ہوئے ہے، اور سیلاب کے دوران پنجاب حکومت نے بہترین کام کیا۔
انہوں نے پی ٹی آئی کے الیکشن بائیکاٹ کے دعوے پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ ’’یہ کیسا بائیکاٹ ہے جس میں عمر ایوب کی اہلیہ خود الیکشن لڑ رہی ہیں؟‘‘
خیبر پختونخوا کی صورتحال پر بات کرتے ہوئے نواز شریف نے کہا کہ وہاں ہر تیسرے دن آئی جی بدل دیا جاتا ہے، کوئی مستقل پالیسی نہیں اور نہ ہی ترقیاتی کام نظر آتے ہیں۔
نواز شریف نے اراکین اسمبلی کو ہدایت کی کہ وہ مستقبل کی حکمت عملی پر توجہ دیں اور سیاسی استحکام کے ذریعے اقتصادی بحالی کو ترجیح بنائیں۔











