بدھ,  19 نومبر 2025ء
امریکا سعودی عرب کو ایف-35 طیارے اور ٹینک فراہم کریگا
امریکا سعودی عرب کو ایف-35 طیارے اور ٹینک فراہم کریگا

اسلام آباد(روشن پاکستان نیوز) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سعودی عرب کو باضابطہ طور پر ’’اہم نان نیٹو اتحادی‘‘ قرار دینے کا اعلان کیا جبکہ دونوں ممالک نے دفاع، جوہری توانائی، مصنوعی ذہانت اور اہم معدنیات کے شعبوں میں بھی نئے معاہدوں کا اعلان کیا۔

وائٹ ہاؤس میں منعقدہ بلیک ٹائی ڈنر کے دوران ٹرمپ نے اعلان کیا کہ امریکا سعودی عرب کے ساتھ عسکری تعاون کو نئی سطح پر لے جا رہا ہے اور مملکت کو باضابطہ طور پر ’’اہم نان نیٹو اتحادی‘‘ کا درجہ دے رہا ہے۔

یہ اسٹیٹس اہم فوجی اور معاشی مراعات فراہم کرتا ہے، تاہم سکیورٹی کی براہِ راست ضمانت شامل نہیں ہوتی۔

ٹرمپ نے کہا کہ ایران کے جوہری تنصیبات پر امریکا کے جون میں کیے گئے حملوں نے سعودی عرب کو ’’مزید محفوظ‘‘ بنا دیا ہے۔

وائٹ ہاؤس کے مطابق دونوں ملکوں کے درمیان اس موقع پر اسٹریٹجک ڈیفنس ایگریمنٹ پر بھی دستخط ہوئے، جو مشرقِ وسطیٰ میں دہشت قائم کرنے، امریکی دفاعی کمپنیوں کے لیے سعودی عرب میں کام آسان کرنے اور امریکا کے اخراجات میں کمی لانے کے لیے سعودی فنڈز فراہم کرنے سے متعلق ہے۔

یہ معاہدہ اس نیٹو طرز کی سکیورٹی گارنٹیز سے کم تر ہے جس کی سعودی عرب پہلے خواہش رکھتا تھا۔

ایف-35 طیاروں اور ٹینکوں کی خریداری

امریکا نے ایف-35 اسٹیلتھ فائٹر جیٹس کی مستقبل میں فراہمی کی منظوری دے دی ہے جبکہ سعودی عرب نے 300 امریکی ٹینک خریدنے پر اتفاق کر لیا ہے۔

اگر مملکت کی جانب سے 48 ایف-35 طیاروں کی درخواست آگے بڑھی تو یہ پہلی بار ہو گا کہ امریکا یہ جدید ترین لڑاکا طیارے ریاض کو فروخت کرے گا، جو خطے میں عسکری توازن پر اثرانداز ہو سکتا ہے اور اسرائیل کی ’’معیاری عسکری برتری‘‘ کے حوالے سے واشنگٹن کی پالیسی کا عملی امتحان بھی ہوگا، کیونکہ تاحال پورے مشرقِ وسطیٰ میں صرف اسرائیل ہی ایف-35 کا حامل ملک ہے۔

مزید پڑھیں: امریکہ میں صدر ٹرمپ کیخلاف ہر ریاست میں بڑے پیمانے پر مظاہرے

جوہری توانائی کے تعاون کی ڈیل

دونوں فریقین نے سول جوہری توانائی کے تعاون پر مذاکرات کی تکمیل کے ایک مشترکہ اعلامیے پر بھی دستخط کیے، جس کے بارے میں وائٹ ہاؤس نے کہا کہ یہ طویل المدتی جوہری شراکت داری کی قانونی بنیاد فراہم کرے گا۔

ولی عہد محمد بن سلمان طویل عرصے سے امریکی جوہری ٹیکنالوجی تک رسائی اور سعودی عرب کو متحدہ عرب امارات اور ایران کے ہم پلہ لانے کے لیے ایسے معاہدے کی کوشش کرتے آئے ہیں،

تاہم پیش رفت اس لیے سست رہی کیونکہ سعودی عرب نے یورینیم کی افزودگی اور ایندھن کی ری پروسیسنگ کو ممنوع قرار دیے جانے کی امریکی شرط قبول نہیں کی تھی۔ یہ شرط دراصل ایٹمی ہتھیار بنانے کے ممکنہ رستوں کو روکنے کے لیے عائد کی گئی ہے۔

مزید خبریں