تحریر : عدیل آزاد
آئین کی 27 ویں ترمیم کی منظوری کے بعد ملک میں پیدا ہونے والا ردِعمل ہماری سیاست اور عدالتی نظام کی گہری تقسیم کا مظہر ہے۔ مختلف حلقوں کی جانب سے شدید بے چینی، تنقیدی بیانات اور اداروں کے مستقبل سے متعلق خدشات ظاہر کیے جا رہے ہیں، جو اس امر کی نشاندہی کرتے ہیں کہ ریاستی ڈھانچے کے اندر عدم اعتماد پہلے سے موجود تھا اور اب زیادہ نمایاں ہو گیا ہے۔
یہ حقیقت اپنی جگہ برقرار ہے کہ پاکستان میں عدلیہ کے کردار، شفافیت، تقرریوں، اور ادارہ جاتی حدود سے متعلق بحث طویل عرصے سے جاری تھی۔ عدالتی نظام نے کئی مواقع پر ایسے فیصلے کیے جنہوں نے نہ صرف آئینی توازن کو متاثر کیا بلکہ سیاسی کشمکش میں اضافہ بھی کیا۔ اسی پس منظر میں اصلاحات اور تنظیمِ نو کا مطالبہ بارہا سامنے آتا رہا، جسے اب عملی شکل دی گئی ہے۔
ہمارے ہاں اکثر سیاسی و صحافتی بیانیے اصولوں کے بجائے شخصیات کے گرد گھومتے ہیں۔ اگر کوئی عدالتی فیصلہ سیاسی خواہشات کے مطابق نہ ہو تو عدلیہ پر تنقید شروع ہو جاتی ہے، اور اگر فیصلہ پسندیدہ ہو تو عدلیہ ’’آزاد‘‘ محسوس ہونے لگتی ہے۔ یہ رویہ انصاف، دلیل اور قانون کی بالادستی کے بجائے سیاسی پسند و ناپسند کا عکاس ہے۔
ترمیم کے بعد کچھ جج صاحبان کے مستعفی ہونے نے بحث کو مزید توجہ دی ہے۔ اختلافِ رائے ہر ادارے اور ہر جمہوری عمل کا ایک اہم حصہ ہے، مگر اس اختلاف کو دلیل، آئینی دائرے اور شائستگی کے ساتھ بیان کرنا زیادہ بامعنی ہوتا ہے۔ اصول پسندی کے دعوؤں کے ساتھ یہ سوال بھی اہم ہے کہ کیا اس کے ساتھ وہ تمام مراعات اور تحفظات بھی چھوڑ دیے جاتے ہیں جن پر نظریاتی بنیادوں پر اعتراض کیا جاتا رہا ہے؟
یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ آئینی ترامیم اور قانون سازی پارلیمنٹ کی ذمہ داری ہے، اور ریاستوں کے دستور وقت کے ساتھ بدلتے عالمی حقائق، داخلی ضروریات اور ادارہ جاتی تقاضوں کے مطابق ارتقا پذیر ہوتے رہتے ہیں۔ دنیا ایک نئے ملٹی پولر نظام میں داخل ہو چکی ہے جہاں طاقت کے مراکز تبدیل ہو رہے ہیں، اور اس تبدیلی نے ہر ریاست کو مجبور کیا ہے کہ وہ اپنی داخلی حکمرانی کے ڈھانچے اور ادارہ جاتی حدود کا ازسرنو جائزہ لے۔
پاکستان کو بھی ان عالمی تبدیلیوں کے تناظر میں ایسا سیاسی و حکومتی ماڈل تشکیل دینا ہو گا جس میں اداروں کے درمیان تصادم کے بجائے ہم آہنگی ہو، رولز آف گیم واضح ہوں اور ہر ادارہ اپنی آئینی حدود میں رہتے ہوئے مؤثر کردار ادا کرے۔ قومی اتفاقِ رائے، سیاسی استحکام، اور ایسی قیادت کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گئی ہے جو ذاتی انا، انتقامی سیاست یا غیرضروری محاذ آرائی کے بجائے تدبر، بصیرت اور مکالمے کو ترجیح دے۔
بدلتی دنیا میں وہی ریاستیں خود کو مضبوط بنا سکتی ہیں جو داخلی سطح پر متحد ہوں اور بیرونی سطح پر حقیقت پسندانہ حکمتِ عملی اختیار کریں۔ پاکستان کو آگے بڑھنے کیلئے جذباتی نعروں کے بجائے ایک متوازن، پائیدار اور ادارہ جاتی ہم آہنگی پر مبنی راستہ اپنانا ہو گا۔











