کالم: میں اور میرا دوست
ایک کڑوا مگر سچا مکالمہ
میں نے دوست کو چائے کے کپ کے سامنے بیٹھے دیکھا تو سمجھ گیا کہ آج اُس کے چہرے پر جو تناؤ ہے، کچھ نہ کچھ ضرور ہوا ہے۔ میں نے ہلکے لہجے میں کہا:
“کیا ہوا؟ پھر کسی نئی وائرل ویڈیو نے دل جلا دیا ہے؟”
دوست نے سرد لہجے میں کہا: “دل کیا جلنا تھا، پورا معاشرہ جل رہا ہے۔ اور سچ پوچھو تو آج آگ ڈاکٹر نبیہہ اور اُن کے دولہا حارث کھوکھر کی شادی کی ویڈیو نے لگائی ہے۔”
میں نے رک کر پوچھا: “انہوں نے ایسا کیا کر دیا؟ نکاح ہی تو کیا ہے۔”
دوست نے کپ زور سے میز پر رکھ دیا: “نکاح کیا ہے، ضرور کیا ہے۔ لیکن نکاح کے نام پر جو کروڑوں کا تماشا لگایا ہے، وہ کیوں؟ پوری پاکستانی عورتوں کو سادگی، طلاق کے مشورے، رشتوں میں برداشت کا درس دینے والی ڈاکٹر نبیہیہ جب خود واحد نکاح نہ نبھا سکیں اور تیسری شادی کریں، تو بھی بات قابل اعتراض نہیں۔ مسئلہ تب بنتا ہے جب وہ خود نمائش میں ڈوبی ہوئی ویڈیو بنا کر یہ اعلان کریں کہ ڈیڑھ کروڑ کے زیورات پہنے ہیں اور ایک کروڑ کا عروسی جوڑا ڈیزائن کرایا ہے۔”
میں نے نرم لہجے میں کہا: “چلو ٹھیک ہے، اُن کی پسند ہے۔ پریشان ہونے سے کیا ہوگا؟”
دوست آگ بگولہ ہو گیا: “پریشانی کا سبب پسند نہیں، اثر ہے۔ دلہن ڈاکٹر نبیہیہ جب کروڑوں کے زیورات دکھاتی ہیں اور دولہا حارث کھوکھر ڈالروں کا ہار پہن کر آتا ہے، تو یہ کس طبقے کی نمائندگی ہے؟ یہ ویڈیو مڈل کلاس لڑکیوں اور خاندانوں کو کیا پیغام دیتی ہے؟ کیا یہ کہ نکاح خوش نصیبی نہیں بلکہ نمائش کا نام ہے؟”
میں نے کہا: “مگر ذاتی خرچ پر اعتراض کرنا بھی درست نہیں۔”
دوست نے ہاتھ اٹھا کر روک دیا: “میں ذاتی خرچ پر نہیں، اجتماعی نقصان پر بات کر رہا ہوں۔ یہ لوگ موٹیویشنل اسپیکر ہیں۔ ان کی باتیں معاشرے میں معیار طے کرتی ہیں۔ جب ڈاکٹر نبیہیہ خود کروڑوں کے جوڑے اور زیورات دکھائیں گی، تو غریب لوگ اپنی بیٹیوں کے لیے بھی ایسے ہی خواب دیکھیں گے۔ جہیز بڑھے گا۔ دکھاوا بڑھے گا۔ مقابلہ بازی بڑھے گی۔”
میں نے ماحول نرم کرنے کی کوشش کی: “ہاں، یہ تو ٹھیک ہے۔ لیکن کچھ لوگ پھر بھی سادگی کرتے ہیں۔”
دوست نے ہلکی طنزیہ ہنسی ہنسی: “ایسے لوگ دکھائی نہیں دیتے۔ دکھائی دینے والے ڈاکٹر نبیہیہ اور اُن جیسے لوگ ہیں جو اثر انداز ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں پیسہ صرف دو جگہ بہایا جاتا ہے: شادیوں میں اور گھر بنانے میں۔ تعلیم؟ تحقیق؟ کتابیں؟ کچھ نہیں۔ شادی پر لاکھوں، کروڑوں اڑ جائیں گے۔ مگر کوئی ایک ہزار روپے کی کتاب خریدنے سے پہلے سوچتا ہے۔”
میں نے کہا: “تو کیا مسئلہ صرف ڈاکٹر نبیہیہ اور حارث کھوکھر کی شادی ہے؟”
دوست نے جواب دیا: “وہ صرف علامت ہیں۔ اصل مسئلہ قومی نفسیات ہے۔ ہم دکھاوے کے غلام بن چکے ہیں۔ سادگی کا درس دینے والے خود سادگی چھوڑ دیں تو معاشرہ کہاں جائے؟
نکاح کی اصل خوبصورتی سادگی، برکت، اخلاق اور ذمہ داری میں ہے۔ لیکن جب دلہن کروڑوں میں لدی ہو اور دولہا ڈالروں میں لپٹا ہوا ہو تو کیا یہ برکت کا پیغام ہے یا دکھاوے کا؟”
میں نے آہستہ سے کہا: “تمہارا غصہ جائز ہے، مگر لہجہ ذرا نرم کر لو۔”
دوست نے سر جھٹک کر کہا: “نرمی حقیقت کو نہیں بدلتی۔ تلخ سچ یہی ہے کہ ہم شادیوں کو نمائش بنا چکے ہیں۔ پھر جب مڈل کلاس لڑکی شادی نہ ہونے پر پریشان ہوتی ہے، تو ہم کہتے ہیں ‘صبر کرو، اللہ بہتر کرے گا۔’ لیکن بہتر کیسے کرے گا جب معاشرہ خود ہی رکاوٹ کھڑی کرے؟ ڈاکٹر نبیہیہ اور حارث کھوکھر کی شادی جیسے ایونٹس اس رکاوٹ کو مزید مضبوط کرتے ہیں۔”
میں نے کچھ لمحے خاموش رہ کر کہا: “تو پھر حل کیا ہے؟”
دوست نے دھیرے سے کہا: “حل یہی ہے کہ ہم سادگی کو عملی طور پر اپنائیں۔ جو لوگ مشہور ہیں، انہیں اپنی ذمہ داری سمجھنی چاہیے۔ وہ سادگی دکھائیں گے تو معاشرہ انہیں فالو کرے گا۔ ورنہ ہم اسی دکھاوے، مقابلہ بازی اور غیر ضروری بوجھ میں دبے رہیں گے۔”
میں نے آخری مرتبہ کہا: “تم ٹھیک کہتے ہو۔ شاید اس تلخی میں ہی علاج ہے۔”
دوست نے دھیرے سے کہا: “بس یہی بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ انسان کی قیمت زیورات سے نہیں، کردار سے ہوتی ہے۔ نکاح وہ ہے جو دلوں میں سکون لائے، نہ کہ وہ جو لوگوں کو احساسِ کمتری میں مبتلا کرے۔”
میں نے چائے کے کپ کو خالی ہوتا دیکھا اور سوچا کہ دوست کا غصہ دراصل اس معاشرے کے زخموں کااظہار ہے۔ وہ تلخ ضرور ہے، مگر سچ پر مبنی ہے۔ اور یہی سچ شاید کبھی نہ کبھی ہمارے رویّے بدل دے۔











