تحریر: عدیل آزاد
جب کوئی ملک اپنے اندر جلتا ہے تو دنیا عموماً دو باتیں کرتی ہے: افسوس اور حساب کتاب۔ سوڈان میں جو منظرنامہ ہم آج دیکھ رہے ہیں، وہ افسوس سے کہیں بڑھ کر ہے — یہ انسانی المیہ ہے جس کے تصور میں طاقت، مفاد اور بے عملی کا تلخ امتزاج ہے۔ مگر سوال سادہ ہے: کون جیت رہا ہے اور کون ہار رہا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ جیتنے والے کم، خسارے میں سب ہیں۔
سب سے پہلے بات کریں منظر کی۔ سوڈانی افواج (SAF) اور ریپڈ سپورٹ فورسز (RSF) کے درمیان یہ خانہ جنگی محض داخلی جھگڑا نہیں رہی؛ یہ جنگ ایک وسیع طاقت کے کھیل میں تبدیل ہو گئی ہے۔ دارفور کی سرزمین، جس نے تاریخ میں پہلے بھی انسانی آلام دیکھیے ہیں، آج دوبارہ خون اور آوارگی کا منظر دیکھ رہی ہے۔ لاکھوں بے گھر، ہزاروں لاپتہ یا شہید — اعداد و شمار سرد، مگر ان کے پیچھے ایک ہر لحظہ ہلتا ہوا آدمی، ایک ٹوٹتا گھر، ایک بھوکا بچہ ہے۔
اب سوال آتا ہے: بیرونی طاقتیں (جنہیں ہم سَمراج کہتے ہیں) اس میں کیوں کود رہی ہیں؟ ایک لفظ میں جواب — مفاد۔ مگر یہ مفاد صرف سونے یا تیل تک محدود نہیں۔ سوڈان کی جغرافیائی حیثیت — بحیرہ احمر تک رسائی، افریقہ کا دروازہ، اور وسیع جیو اسٹریٹجک پوزیشن — وہ سب ایک ایسے منظرنامے کی طرف اشارہ کرتے ہیں جہاں قوتیں اپنی جگہ مضبوط کرنا چاہتی ہیں۔ جو فریق ان کے لئے قابلِِ عمل ہوگا، اسے سیاسی، اقتصادی اور عسکری فائدے ملیں گے۔
مفادات کے لباس میں جو ہتھکنڈے استعمال ہو رہے ہیں، وہ دو رخوں پر نظر آتے ہیں: اول، براہِ راست اثر و رسوخ — کسی فریق کی حمایت، امداد یا حتیٰ کہ خفیہ اسلحہ کی فراہمی؛ دوم، خاموش رضامندی — عالمی سطح پر خاموشی یا نم آنکھیں جو عمل کی شکل میں بدلتی نہیں۔ بعض ملکوں کی سیاست یہ ہے کہ وہ کھلے بیانیے کے باوجود زمین پر ایسی حرکتوں کو برداشت کرتے ہیں جو ان کے دور رس مفاد میں آئیں۔ نتیجہ؟ جنگ طویل اور شدید ہوتی جائے، انسانی قیمت بڑھتی جائے، اور عالمی سسٹم اپنا اخلاقی کریڈٹ گنواتا جائے۔
یہاں ایک خاموش مگر اہم حقیقت یہ بھی ہے کہ جمہوری یا عوامی آوازیں اکثر ایسے حالات میں دبا دی جاتی ہیں۔ طاقت ور مفاد کار وہی پسند کرتے ہیں جو کنٹرول میں رہے — نہ کہ وہ جو آزادانہ طور پر اپنے حقوق کے لئے اٹھ کھڑے ہوں۔ سوڈان میں جمہوریت کا خواب، اگرچہ بار بار دہرا دیا جاتا ہے، مگر عملی طور پر پس پشت ہوتا دکھائی دیتا ہے جب وہ طاقتیں اپنی جغرافیائی اور معاشی مفادات کو مقدم رکھتی ہیں۔
اور پھر ہم آہنگی کی بات آتی ہے — عالمی برادری کا کردار۔ بیانات، تشویش اور ہمدردی کے نوٹس شاذ و نادر ہی کفایت کرتے ہیں۔ جب مؤثر کارروائی، امن عمل یا انسانی امداد کو سیاسی منافع پر ترجیح نہیں دی جاتی تو المیہ بڑھتا ہے۔ سوال تو یہ ہے کہ ہمیں انسانیت بچانی ہے یا بس مبصر رہنا ہے؟
سوڈان کا المیہ صرف سوڈان تک محدود نہیں رہے گا۔ جب ایک خطہ عدم استحکام میں پڑتا ہے تو اس کے اثرات پڑوسی ممالک تک پہنچتے ہیں — پناہ گزینوں کی لہر، بین الاقوامی تجارت میں خلل، اور علاقائی سیاست میں نئی پیچیدگیاں۔ ہمارے خطے کے لئے بھی اس کے منفی نتائج واضح ہیں: سیاسی عدم استحکام، اقتصادی دباؤ، اور ممکنہ عسکری کشیدگی۔ اس لئے ہمیں صرف غم و غصّہ نہیں، عملی حکمتِ عملی بھی اپنانے کی ضرورت ہے — چاہے وہ انسانی امداد کی متفقہ فراہمی ہو یا پناہ گزینوں کے لیے منصوبہ بندی۔
آخر میں سب سے اہم بات: انسانی زندگی کی قدر۔ جب طاقتیں زمین پر اپنے مفادات کھیلتی ہیں تو انسانی جان، گھر، مسکن اور آدابِ زندگی قیمت بن جاتے ہیں۔ ہمیں یہ مطالبہ کرنا چاہیے کہ بین الاقوامی نظام صرف بیان بازی تک محدود نہ رہے۔ حقِِ انسانی کا تحفظ، فوری اور مؤثر انسانی امداد، اور جنگی جرائم کے مرتکبوں کا احتساب — یہ وہ عملی قدامات ہیں جن کے بغیر کوئی بھی کیسی حقیقی امن کی بات نہیں کر سکتا۔
سوڈان آج ہمیں ایک پیغام دیتا ہے: جب سیاست اور مفاد انسانی قدر سے بالاتر ہو جائیں تو ریاستیں جیتتی دکھائی دے سکتی ہیں مگر انسان ہارتا ہے۔ اور یہی شکست ہمارے ضمیروں کا سوال ہے — کیا ہم اس کو محض خبر سمجھ کر آگے بڑھ جائیں گے، یا کہیں گے کہ انسانیت کسی مفاد سے بالاتر ہے؟











