جمعرات,  30 اکتوبر 2025ء
کم عمری کی شادیوں میں اصلاحات: اسلامی رہنمائی میں مشترکہ مشاورتی اجلاس

اسلام آباد(روشن پاکستان نیوز)پنجاب کمیشن آن دی اسٹیٹس آف ویمن (پی سی ایس ڈبلیو)،س محکمہ ترقی نسواں (ڈبلیو ڈی ڈی)لاہورحکومت پنجاب اورآرگنائزیشن فار ڈویلپمنٹ ایڈووکیسی پوداPODAنے باہمی طور پر شادی کی عمر سے متعلق قانون سازی اور مسلم فیملی لاز پر ایک مشاورتی سیشن کا اہتمام کیا۔ تقریب میں بنگلہ دیش، انڈونیشیا، مراکش، نائیجیریا، عمان اور یمن کے بین الاقوامی مسلم اسکالرز اور محققین کے ساتھ ساتھ صوبائی محکموں کے نمائندوں نے بھی شرکت کی، جن میں قانون اور پارلیمانی امور، ویمن پروٹیکشن اتھارٹی، محکمہ اوقاف، بیت المال، سماجی بہبود، مقامی حکومت اور کمیونٹی ڈویلپمنٹ، پولیس، پنجاب سیف سٹی اتھارٹی، صحت اور آبادی بہبود، اور تعلیم شامل ہیںناروے کی ایمبیسی اسلام آباد کے تعاون سے اس پروجیکٹ تحت یہ مشاورت منعقد کی گئی تھی۔ وکلا، مذہبی اسکالرز، سول سوسائٹی کے نمائندوں، خصوصی افراد اور اکیڈمیشنز نے بھی اس بحث میں حصہ لیا۔شرکاء نے ان مسلم ممالک کی موثر عملی طریقوں کا اشتراک کیا جنہوں نے لڑکیوں اور لڑکوں دونوں کے لیے شادی کی کم از کم قانونی عمر 18 سال یا اس سے زیادہ مقرر کی ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ ایک مضبوط اور صحت مند امہ کی تعمیر کے لیے جذباتی اور جسمانی پختگی یکساں طور پر ضروری ہے۔یمن سے امل بشا، انڈونیشیا سے اندی نور فیضہ، مراکش سے پروفیسر عزیز میشوت، عمان سے بدر بن سالم بن حمدان، نائیجیریا سے بلاریب اے ہارونا، اور بنگلہ دیش سے سعیم رضا تلقندر نے شرکت کی۔صوبائی اسمبلی پنجاب کے آٹھ اراکین عظمی کردار، رشدہ لودھی، صفیہ سعید، محترمہ فاطمہ، محترمہ نسرین، محترمہ ممتاز ثوبل ملک حسین، اور سابق رکن صوبائی اسمبلی شمیلہ اسلم نے پورے پاکستان میں لڑکیوں کی شادی کی کم از کم عمر 18 سال کرنے کی اہمیت پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ کم عمر لڑکیوں کو جلد شادیوں سے بچانا انصاف، صنفی مساوات اور بہبود کے اسلامی اصولوں کے عین مطابق ہے۔پی سی ایس ڈبلیوPCSW کے سکریٹری اعجاز احمد جویا نے اپنے خیرمقدمی کلمات میں کہا کہ شادی مضبوط خاندانی ڈھانچے کی بنیاد ہے ایک ایسا شعبہ جہاں ایمان، ثقافت، قانون اور انسانی حقوق باہم ملتے ہیں اور اس پر غور و خوض اور مکالمے کی ضرورت ہوتی ہے۔بادشاہی مسجد کے امام قاری محمد انیس نے بھی مشاورت میں شرکت کی اور اس مقصد کی حمایت کا اظہار کرتے ہوئے کہ لڑکیوں کے حقوق کا تحفظ ایک اخلاقی اور مذہبی ذمہ داری ہے۔یہ ایک مشترکہ تفہیم تھی کہ اسلام ایک ترقی پسند مذہب ہے جو قوانین کو معاشرے کی ضروریات اور حالات کے مطابق ارتقا پذیر ہونے کی اجازت دیتا ہے، بشرطیکہ وہ قرآن و سنت کی تعلیمات کے مطابق رہیں۔شرکاء نے زور دیا کہ شادی کی کم از کم عمر لڑکیوں اور لڑکوں دونوں کے لیے 18 سال ہونی چاہیے، تاکہ شادی کے معاشرتی معاہدے کے لیے جذباتی، فکری اور جسمانی طور پر تیاری یقینی بنائی جا سکے۔ اس سیشن میں خاندانی قوانین اور شادی کے قوانین میں یکسانیت کی ضرورت پر روشنی ڈالی گئی اور مرد و خواتین دونوں کے لیے شادی کی کم از کم قانونی عمر 18 سال مقرر کرنے کا مطالبہ کیا گیا، جو اسلامی اصولوں اور بین الاقوامی انسانی حقوق کے معیارات کے مطابق ہے جو پختگی، رضامندی اور ذاتی حقوق کے تحفظ کو فروغ دیتے ہیں۔شرکا نے مزید مسلم ممالک کی حکومتوں اور مذہبی اتھارٹیز پر زور دیا کہ وہ باہمی تعاون کے ساتھ کام کریں تاکہ ایسے قوانین کو ہم آہنگ کیا جا سکے جو اسلامی فقہ اور موجودہ سماجی حقائق دونوں کی عکاسی کریں۔ یہ سیشن مسلم ممالک کے درمیان مکالمہ جاری رکھنے، تقابلی قانونی تحقیق کرنے، اور مربوط پالیسی اقدامات پر عمل درآمد کئے جانے کے مشترکہ عہد کے ساتھ اختتام پذیر ہوا۔ڈبلیو ڈی ڈی کی ایڈیشنل سکریٹری فائزہ احسن اور مسلم اسکالرز نے شرکا میں ڈسکورس میں ان کی قیمتی شراکت کے اعتراف کے طور پر شیلڈز اور سرٹیفکیٹ تقسیم کیے۔

مزید خبریں