منگل,  28 اکتوبر 2025ء
افغانستان کی طرف سے پاکستان کا پانی روکنے کے ایما پر پاکستان دریائے چترال کا پانی دریائے سوات کی طرف منتقل کرنے پر غور ۔ زرائع

اسلام آباد (محمد زاہد خان) افغانستان کی طرف سے پاکستان کا پانی روکنے کے ایما پر پاکستان دریائے چترال کا پانی دریائے سوات کی طرف منتقل کرنے پر غور کر رہا ہے تفصیلات ، زرائع کے مطابق پاکستان اس بات پر غور کر رہا ہے کہ دریائے چترال کا پانی افغانستان میں داخل ہونے سے پہلے ہی موڑ کر دریائے سوات کی طرف منتقل کر دیا جائے، جہاں یہ افغانستان کے دریائے کنڑ (یا کابل) میں شامل ہوتا ہے۔

ذرائع کے مطابق حکومتِ پاکستان چترال، سوات اور کابل دریاؤں کی مربوط ترقی کے لیے ایک فزیبلٹی اسٹڈی شروع کرنے جا رہی ہے جس میں یہ تجویز شامل ہے کہ دریائے چترال کا پانی افغانستان میں داخل ہونے سے پہلے ہی موڑ دیا جائے۔ یہ فزیبلٹی اسٹڈی وزارتِ آبی وسائل کے زیرِ سرپرستی کی جا رہی ہے اس منصوبے کا مقصد چترال، سوات اور کابل دریاؤں کے بہاؤ کو منظم کرنا اور 2,453 میگاواٹ پن بجلی پیدا کرنا ہے۔

دریائے کابل پاکستان کے علاقے اپر مستوج سے نکلتا ہے، جہاں اسے دریائے مستوج کہا جاتا ہے، جبکہ لوئر چترال میں یہ دریائے چترال کہلاتا ہے۔ دریائے چترال ارندو کے مقام پر افغانستان کے صوبہ کنڑ میں داخل ہوتا ہے، جہاں اسے دریائے کنڑ کہا جاتا ہے۔ دریائے کنڑ جلال آباد کے قریب کابل نالے سے مل کر دریائے کابل بن جاتا ہے، جو بعد ازاں پاکستان کے ضلع مہمند میں داخل ہوتا ہے۔

دریائے کابل سے پاکستان کو16۰5 ایم اے ایف پانی ملتا ہے جس میں 8اعشاریہ 4 ایم اے ایف دریائے چترال سے آتا ہے ۔یعنی اکیاون فیصد اس فزیبلٹی اسٹڈی پر 1.644 ارب روپے لاگت آئے گی اور اسے 30 ماہ میں مکمل کیا جائے گا۔ اس منصوبے کا PC-II پہلے ہی منظور کیا جا چکا ہے، اور اب اس کے لیے مشاورتی ماہرین کی خدمات حاصل کی جائیں گی۔

چترال، سوات اور کابل دریاؤں کے بہاؤ کو منظم کرنا، 2,453 میگاواٹ پن بجلی پیدا کرنا (جس میں سے 1,751 میگاواٹ براہِ راست اور 702 میگاواٹ بالواسطہ طور پر مہمند ہائیڈرو پاور پراجیکٹ سے حاصل ہوگی)، 166,310 ایکڑ فٹ ذخیرہ بڑھانا تاکہ موجودہ آبپاشی کے نظام کو مضبوط کیا جا سکے،
مہمند ڈیم کے ذخیرے سے 50 کلومیٹر طویل نہر کے ذریعے ورسک ڈیم کو پانی کی فراہمی، آبپاشی کے نظام کی بحالی، بجلی پیداوار (162.79 گیگا واٹ آور) میں اضافہ، اور سیلاب کی روک تھام، ہائیڈرولوجیکل ڈیٹا جمع کرنا، زمینی سروے، جیولوجیکل تحقیقات، سماجی و ماحولیاتی اثرات کا جائزہ، اور پن بجلی کے امکانات کا مطالعہ شامل ہے دریائے چترال کے پانی کو دریائے سوات کی طرف منتقل کرنے کا تصور سب سے پہلے 1964 میں اُس وقت کی افغان حکومت کی طرف سے پاکستان کا پانی روک کر ڈیم تعمیر کرنے کے ارادے کے بعد واپڈا کے Planning & Investigation Cell کی جانب سے “کابل–سوات–چترال بیسن” پر ایک رپورٹ میں پیش کیا گیا تھا۔ بعد ازاں 2009 میں واپڈا کے Vision 2025 کے تیسرے حصے کے تحت نیسپاک (NESPAK) نے اس منصوبے پر ایک ماسٹر پلاننگ اسٹڈی مکمل کی 2013 میں وزارتِ پانی و بجلی کو اس منصوبے کی PC-II پروفارما جمع کرائی گئی، لیکن فنڈز کی عدم دستیابی کے باعث اس وقت منظوری نہ ہو سکی۔ اب وزارتِ آبی وسائل کی ہدایت پر نئی PC-II پروفارما تیار کی گئی ہے۔ ذرائع کے مطابق اس منصوبے کے جواز میں کہا گیا ہے کہ اس بیسن میں پن بجلی پیدا کرنے کے کئی مواقع موجود ہیں، جن میں سب سے موزوں موقع یہ ہے کہ دریائے چترال کے بہاؤ کو ایک پہاڑی سرنگ کے ذریعے دریائے سوات کی طرف موڑ دیا جائے۔ فزیبلٹی اسٹڈی کی تکمیل کے بعد ایک مفصل رپورٹ تیار کی جائے گی، جو چترال، سوات اور کابل دریاؤں کی مربوط ترقی کی صلاحیت کا اندازہ لگانے میں مدد دے گی — یعنی زرعی پیداوار میں اضافہ، پن بجلی کی پیداوار، اور سیلاب کے خطرات میں کمی، ساتھ ہی کابل، سوات اور سندھ بیسنز میں پانی کے بہاؤ میں بہتری۔

منصوبے کی نمایاں خصوصیات میں شامل ہیں:
چترال کے علاقے مرکھانی میں تقریباً 25 میٹر (82 فٹ) اونچا ایک کم اونچائی والا ڈیم، چترال سے سوات بیسن تک 42 کلومیٹر طویل ٹرانس بیسن سرنگ، جو پانی کو دریائے پنجکورا کے قریب بیبیور قصبے تک پہنچائے گی، سرنگ کے نچلے سرے پر 379 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے والا پاور ہاؤس،دارورا کے مقام پر ایک چھوٹا (9 میگاواٹ) پاور ہاؤس، دارورا ڈائیورشن ویئر سے اوپر تیمargarہ کے قریب 28 کلومیٹر طویل سرنگ جس سے 1,008 میگاواٹ بجلی پیدا کی جائے گی یہ تمام منصوبے پاکستان کے شمالی دریاؤں کے مربوط پانی کے نظام کو بہتر بنانے، بجلی کی پیداوار بڑھانے، زرعی زمینوں کو سیراب کرنے اور سیلابوں کے خطرات کم کرنے کے لیے ایک بڑے ویژن کا حصہ ہیں۔

مزید خبریں