اتوار,  26 اکتوبر 2025ء
قومی ایئرلائن کے زوال پر ماتم!
کالم میں اور میرا دوست

تحریر: ندیم طاہر

کل شام چائے کے دوران میرا دوست حسبِ معمول اپنے مخصوص انداز میں آیا۔ کرسی پر بیٹھتے ہی جیب سے فون نکالا، خبروں کی ایپ کھولی، اور فون میری طرف گھما کر بولا۔

“یار، آخر کار الحمد للہ! پانچ سال بعد پی آئی اے کی فلائٹ مانچسٹر پہنچ گئی!”
میں نے کہا میں بھی وہی خبر دیکھ رہا تھا بہت خوشی کی بات ہے۔

کہنے لگا:
“ہاں بھائی، 25 اکتوبر 2025 کا دن تاریخ میں لکھا جائے گا۔ پانچ سال تک جو قوم اپنی قومی ایئرلائن کے زوال پر ماتم کرتی رہی، آج پہلی بار خوشی سے جھوم اٹھی۔”

میں نے مسکرا کر کہا:
“لیکن تم تو ہمیشہ کہتے تھے کہ پی آئی اے اب بس ایک کہانی ہے، اس کا دور ختم ہوگیا۔”

وہ ہنسا، چائے کا کپ اٹھایا، اور بولا:
“یار، میں بددل ضرور تھا مگر ناامید نہیں۔ آخر یہ ہماری شناخت ہے۔ مسئلہ صرف یہ ہے کہ ہمارے حکمران اور وزراء اپنی زبانوں پر قابو نہیں رکھتے۔ ایک نالائق وزیر کے غیر ذمہ دارانہ بیان نے جو نقصان پانچ منٹ میں کیا تھا، اسے ٹھیک کرنے میں پانچ سال لگ گئے!”

میں نے تجسس سے پوچھا:
“کون سا بیان تھا؟”
کہنے لگا:
“وہی جس میں وزیر صاحب نے غیر ملکی میڈیا کے سامنے اپنی ہی قومی ایئرلائن کو بدعنوان، غیر محفوظ اور نالائق قرار دے دیا تھا۔ سوچو، جب گھر کا چراغ خود آگ لگائے تو باقی کیا بچتا ہے؟”

میں نے اثبات میں سر ہلایا۔

واقعی، وہ دن یاد آیا جب سوشل میڈیا پر شور مچ گیا تھا۔ برطانیہ، یورپ اور امریکا نے پی آئی اے کی پروازوں پر پابندی لگا دی۔ ہزاروں مسافر متاثر ہوئے، عملہ بے روزگار ہوا، اور پاکستان کی بدنامی الگ۔ ایک ایسا وقت تھا جب پاکستانیوں کو اپنی قومی ایئرلائن کا ذکر کرتے شرم آتی تھی۔

دوست نے بات آگے بڑھائی:
“دیکھو، کسی ادارے کی ساکھ اس کے جہازوں، عمارتوں یا وردیوں سے نہیں بنتی، بلکہ ایمانداری، پیشہ ورانہ صلاحیت اور لیڈرشپ سے بنتی ہے۔ لیکن یہاں ہر وزیر آتا ہے تو پچھلے کو چور، ادارے کو ناکارہ، اور عوام کو نادان قرار دیتا ہے۔”

میں نے چائے کی چسکی لی اور کہا:
“لیکن اب تو پی آئی اے واپس آ گئی ہے، مانچسٹر کی فلائٹ پہنچ گئی، کیا یہ امید کی نئی کرن نہیں؟”

وہ مسکرایا، اور بولا:
“ہاں، مگر سوال یہ ہے کہ ہم کب سیکھیں گے؟ کب یہ ملک افراد کے بیانات کے بجائے اداروں کے اصولوں پر چلے گا؟”

میں نے کہا:
“تم تو آج بڑے فلسفی بن گئے ہو!”
وہ ہنسا:
“فلسفہ نہیں، حقیقت ہے۔ دیکھو، پی آئی اے کبھی دنیا کی بہترین ایئرلائن تھی۔ امارات، قطر، سنگاپور، سب نے اس سے سیکھا۔ ہمارے انجینئرز نے ان کے لیے ٹریننگز دیں۔ مگر ہم نے اپنی بنیادیں خود کھود ڈالیں۔”

میں نے سوچتے ہوئے کہا:
“پھر بھی، یہ کامیابی قابلِ تعریف ہے۔ پانچ سال بعد پہلا جہاز مانچسٹر پہنچا، لوگوں نے پھول برسائے، پائلٹ کو سلامی دی، نعرے لگائے ‘پی آئی اے زندہ باد’۔”
دوست کی آنکھوں میں چمک تھی، مگر لہجے میں تلخی بھی۔

“ہاں، مگر یہ خوشی اس تلخ حقیقت کے ساتھ ہے کہ ہم نے پانچ سال ضائع کیے، اربوں روپے کا نقصان اٹھایا، ہزاروں نوکریاں گنوائیں۔ اور اس سب کی جڑ ایک ‘غیر ذمہ دارانہ بیان’ تھا۔”

میں نے پوچھا:
“لیکن صرف ایک بیان سے اتنا نقصان کیسے ہو سکتا ہے؟”
کہنے لگا:
“بیان الفاظ کا کھیل نہیں ہوتا، وہ قومی وقار کی عکاسی کرتا ہے۔ جب ایک وزیر اپنے ہی ادارے کو بدنام کرے، تو دنیا اسے سچ مان لیتی ہے۔ ہم تو پہلے ہی شکوک میں گھرے ہوئے تھے کرپشن، لاپرواہی، سیاسی بھرتیاں اور اس بیان نے آخری کیل ٹھونک دی۔”

میں نے گہرا سانس لیا۔
“سچ کہو تو، ہمارے ہاں زبان کا غلط استعمال ایک قومی عادت بن چکا ہے۔”

دوست نے اثبات میں سر ہلایا:
“بالکل۔ یہاں ہر کوئی بولنے سے پہلے سوچتا نہیں۔ سیاست میں تو جیسے احتیاط مر چکی ہے۔ ہر تقریر، ہر ٹویٹ، ہر پریس کانفرنس بس مخالف کو نیچا دکھانے کے لیے کی جاتی ہے۔ کوئی یہ نہیں سوچتا کہ اس کا اثر ملک پر کیا پڑے گا۔

میں نے کہا:
“لیکن عوام بھی تو یہی سنتے ہیں، انہیں بھی تو سنسنی چاہیے، سچ نہیں۔”
وہ مسکرایا، مگر آنکھوں میں اداسی تھی۔

“ہاں، عوام تالی بجاتی ہے، مگر نقصان خود اٹھاتی ہے۔ وہ وزیر تو عہدہ چھوڑ کر کسی اور پارٹی میں شامل ہو جاتا ہے، مگر ادارہ، معیشت، اور محنت کش طبقہ سب کچھ بھگتتا ہے۔”

میں نے کہا:
“پھر کیا سمجھا جائے؟ یہ خوشی عارضی ہے؟”

دوست نے جواب دیا:
“نہیں، خوشی حقیقی ہے۔ مگر اسے مضبوط کرنے کے لیے ہمیں رویہ بدلنا ہوگا۔ ہم اگر واقعی چاہتے ہیں کہ پی آئی اے پھر سے فخرِ پاکستان بنے، تو ہمیں اداروں کو سیاست سے آزاد کرنا ہوگا، اور ذمہ دار زبان اختیار کرنا ہوگی۔”

میں نے اثبات میں کہا:
“یعنی اصلاحِ زبان اور اصلاحِ نیت دونوں ضروری ہیں۔”

“بالکل!” وہ بولا۔

“یہ ملک صرف جہازوں یا سڑکوں سے نہیں بنتا، بلکہ سچائی، احترام اور شعور سے بنتا ہے۔ اگر ہم نے یہ سیکھ لیا تو نہ صرف پی آئی اے، بلکہ ہر ادارہ دوبارہ اڑان بھر سکتا ہے۔”

میں نے مسکرا کر کہا:

“تو آج کی چائے کا عنوان یہی ٹھہرا: میں اور میرا دوست… اور پی آئی اے کا نیا سفر!”

وہ ہنسا، اور بولا:
“ہاں، مگر یاد رکھو، یہ صرف ایک فلائٹ نہیں تھی۔ یہ امید کا اڑان تھی۔”

چائے ختم ہو چکی تھی، مگر گفتگو جاری تھی۔ باہر شام اتر رہی تھی، فضا میں ٹھنڈی ہوا تھی، اور دل میں ایک عجیب سا سکون۔ میں نے آسمان کی طرف دیکھا شاید وہاں کہیں پی آئی اے کا وہی جہاز اڑ رہا تھا، جسے ایک نالائق وزیر کے بیان نے زمین پر گرا دیا تھا، مگر اب وہ دوبارہ بلند ہو چکا تھا۔
یہ صرف ایک پرواز نہیں تھی،
یہ ایک پیغام تھا
کہ قومیں غلطیاں ضرور کرتی ہیں،
مگر جب تک ان کے اندر اصلاح کی قوت باقی رہے،
وہ ہمیشہ دوبارہ اڑان بھر سکتی ہیں۔

مزید خبریں