اتوار,  26 اکتوبر 2025ء
رشید حسرت کی شاعری کا تجزیاتی مطالعہ

تحریر: ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی

بلوچستان کے ضلع کچھی کے پسماندہ گاؤں مِٹھڑی میں 16 جون 1962 کو جنم لینے والے عبدالرشید، جنہیں ادبی دنیا میں “رشید حسرت” کے نام سے جانا جاتا ہے، اردو شاعری کے اُن معتبر اور مخلص ناموں میں سے ہیں جنہوں نے اپنی فکری دیانت، عروضی مہارت اور انسانی جذبات کے توازن سے اردو ادب میں ایک خاص پہچان قائم کی۔ غربت اور سماجی مشکلات کے باوجود، رشید حسرت نے نہ صرف اپنی تعلیم مکمل کی بلکہ ستائیس سال تک کالج سطح پر اردو ادب پڑھا کر کئی نسلوں کو فکری بصیرت بخشی۔ سبکدوشی کے بعد بھی بلا معاوضہ علمِ عروض کی تدریس ان کے عشقِ ادب اور جذبۂ خدمت کی روشن مثال ہے۔

رشید حسرت نے 1981 سے باقاعدہ شاعری کا آغاز کیا۔ ان کی شاعری اخبارات، ادبی رسائل اور کل پاکستان و کل پاک و ہند مشاعروں میں شائع اور پیش ہوتی رہی۔ پی ٹی وی کوئٹہ کے مشاعروں میں ان کی شرکت ان کی تخلیقی شناخت کا آغاز تھی، مگر بعد میں انہوں نے اجارہ داریوں اور غیر منصفانہ رویّوں سے تنگ آ کر اس نظام سے علیحدگی اختیار کی۔
ان کے پانچ شعری مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ سب کے سب اپنی ذاتی جیب سے، جو ان کے خلوص اور ادب سے والہانہ لگاؤ کی علامت ہیں۔ رشید حسرت اس طبقے کے نمائندہ شاعر ہیں جنہوں نے ادب کو کاروبار نہیں بلکہ عبادت سمجھا۔

رشید حسرت کی شاعری احساس و اظہار کا حسین امتزاج ہے۔ ان کے اشعار میں ایک طرف زندگی کے تلخ تجربات کی گہرائی ہے تو دوسری طرف انسانی کردار اور اجتماعی رویّوں پر گہرا طنز بھی۔ ان کا لہجہ سادہ مگر پُر اثر ہے، جس میں کلاسیکی روایت کی خوشبو اور جدید عہد کی معنویت دونوں جھلکتی ہیں۔

ان کی تازہ غزل کا یہ شعر ملاحظہ کیجیے:
بوڑھا تھا مگر عین جوانی میں کھڑا تھا
مہکار میں تھا رات کی رانی میں کھڑا تھا
یہ شعر اپنے اندر دوہری معنویت رکھتا ہے۔ جسمانی عمر کی بڑھاپے کے باوجود جذبے اور عزم کی جوانی۔ “رات کی رانی” کا استعارہ حسن اور مہک کا ہے، جو شاعر کے باطن کی روشنی کا پتہ دیتا ہے۔

اسی غزل میں کردار، وفا، معاشرتی سرد مہری اور زمانے کی ناقدری جیسے موضوعات نہایت سلیقے سے بیان ہوئے ہیں مثلاً:
تھے جتنے بھی وہ بیٹھ گئے ایک مگر وہ
کردار تھا جو ساری کہانی میں کھڑا تھا
یہ شعر نہ صرف انسانی کمزوریوں کی نشاندہی کرتا ہے بلکہ اس بات کی علامت بھی ہے کہ اصول پر قائم رہنے والا شخص ہمیشہ تنہا ہوتا ہے۔
رشید حسرت کے ہاں ماضی کی یاد اور حال کی تنقید، دونوں ساتھ چلتے ہیں جیسے:
کچھ دیر کو وہ کوچہ و گھر ذہن میں اترے
کچھ دیر کو وہ یاد پرانی میں کھڑا تھا
یہ اشعار داخلی مکالمے اور وقت کی گردش کے احساس سے لبریز ہیں۔

رشید حسرت عروضی اعتبار سے نہایت مضبوط شاعر ہیں۔ ان کی بحریں متوازن، ردیف و قافیہ میں نفاست اور تشبیہ و استعارے میں تازگی پائی جاتی ہے۔ ان کا لہجہ خطیبانہ نہیں بلکہ تخلیقی صداقت پر مبنی ہے۔ وہ جذبے کو سجا کر نہیں بلکہ سچائی کے ساتھ بیان کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے اشعار قاری کے دل میں اترتے ہیں اور دیرپا اثر چھوڑتے ہیں۔

ان کی شاعری میں طنز کی ایک نرم لہر بھی موجود ہے۔ طنز جو دل آزاری نہیں بلکہ اصلاحِ فکر کا ذریعہ بنتا ہے مثلاً:
سب کرسیاں خالی تھیں مگر ایک ادب دان
بھاشن پہ رشید اپنی روانی میں کھڑا تھا
یہ شعر خود شاعر کی ذات کا عکاس ہے، ایک سچا ادیب جو تنہائی میں بھی ادب کے وقار کو قائم رکھے ہوئے ہے۔

رشید حسرت کا دکھ صرف ذاتی نہیں بلکہ اجتماعی ہے۔ وہ اس معاشرے کی سرد مہری، کتاب سے بے رغبتی اور مادیت پرستی کے خلاف احتجاج کرتے ہیں۔ ان کے اپنے الفاظ میں:
“حسرت وہ چاندنی وہ عقیدت کے سلسلے
پر کیا کریں کہ مسئلہ تھا روزگار کا”
یہ شعر محض ایک ذاتی شکوہ ہی نہیں بلکہ ایک عہد کا نوحہ بھی ہے جس میں فنکار اپنے زمانے کے مادی جبر کے سامنے بے بسی کا اعلان کرتا ہے۔

رشید حسرت کی شاعری میں نہ تو جذباتی تصنع ہے اور نہ ہی فکری بے سمتی۔ وہ کلاسیکی روایت سے جڑے ہوئے بھی ہیں اور جدید حسیت کے قائل بھی۔ ان کی شاعری میں میر، فراق اور ناصر کاظمی کی تاثیر کے ساتھ ساتھ اکیسویں صدی کے شعور کی گہرائی بھی موجود ہے۔ ان کے اشعار میں علامتی معنویت، سماجی بصیرت اور فکری پختگی بیک وقت جلوہ گر ہے۔

رشید حسرت اردو شاعری کے اُن خالص، غیر تجارتی اور فکری طور پر معتبر شعرا میں سے ہیں جنہوں نے ادب کو اپنی زندگی کا مقصد بنایا۔ ان کی شاعری میں انسانی احساس کی صداقت، فن کی پختگی، اور عہدِ حاضر کی تنقید کا حسین امتزاج ہے۔ اگرچہ معاشرتی بے اعتنائی نے ان کے راستے کو مشکل بنایا، مگر وہ آج بھی اپنی “روانی میں کھڑے” ہیں، ادب کی خدمت میں، سچائی کے ساتھ کھڑے ہیں۔
*
نمونہ کلام
*
میں اپنے آپ کو تنہائیوں میں رکھتا ہوں
عمیق درد کی گہرائیوں میں رکھتا ہوں

گداز طبع کو تو کھینچ لوں گا اپنی طرف
گھمنڈیوں کو میں سودائیوں میں رکھتا ہوں

وہ زر پرست جو رانجھے سے ہیر چھینتے ہیں
تو اپنی چیخ میں شہنائیوں میں رکھتا ہوں

فقط اجالا نہیں راس میری آنکھوں کو
رمق اندھیرے کی بینائیوں میں رکھتا ہوں

وہ میرا دوست ہو، دشمن کہ ہو سگا بھائی
میں خود پرست کو ہرجائیوں میں8 رکھتا ہوں

کروں میں کیا کہ یہ برداشت میرا شیوہ ہے
ملال جتنا ملے کھائیوں میں رکھتا ہوں

جو سچ کہوں تو دھنک ان کے دم قدم سے ہے
میں اپنے شعروں کو انگڑائیوں میں رکھتا ہوں

سبھی کو دعویٰ تھا، آیا تھا مجھ پہ وقت کٹھن
رہے جو ساتھ، انہیں بھائیوں میں رکھتا ہوں

رشیدؔ تن پہ جو مزدور کے سجی ہے میاں
پھٹی قمیص کو زیبائیوں میں رکھتا ہوں
*
ہم تو سجدے بھی کیا کرتے تھے اک ایک کے بعد
پر وہ الزام دھرا کرتے تھے اک ایک کے بعد

ہم کو نفرت کی نظر بھی نہ ملی ہے تم سے
لوگ قربت میں رہا کرتے تھے اک ایک کے بعد

مان لیتا ہوں کسی نے نہیں چھیڑے گھاؤ
پر نمک لے کے وہ کیا کرتے تھے اک ایک کے بعد

تم نے کانوں میں تکبّر کی رئی ٹھونسی تھی
ہم تو آواز دیا کرتے تھے اک ایک کے بعد

ہم اسی سوچ میں تھے جا کے کہاں پر بیٹھیں
لوگ تشریف رکھا کرتے تھے اک ایک کے بعد

ہم بھی قیدی تھے کئی اور پرندوں کی طرح
اور صیّاد رہا کرتے تھے اک ایک کے بعد

زخم ہمدرد رفیقوں سے کہیں بڑھ کے رشیدؔ
آ کے سینے سے لگا کرتے تھے اک ایک کے بعد
*
نصیب ہو نہیں پایا جو رنگ میرؔ کا ہے
وگرنہ شعر مرا بھی تو زہر تیر کا ہے

قفس سے اپنی محبت کے مت نکال اسے
رہے گا قید سدا فیصلہ اسیر کا ہے

شکست و ریخت سے یہ ہم کنار کر دے گا
اٹھا نہ پاؤں گا میں بوجھ وہ ضمیر کا ہے

یہ اس کی سیوہ کرے، وہ لہو نچوڑے گا
غریبِ شہر سے کیسا سلوک امیر کا ہے

نکل کے جانے نہ پاؤں تری اسیری سے
سوال رخ کا ترے، زلفِ حلقہ گیر کا ہے

چلا تھا پار لگانے کو بیچ میں چھوڑا
یہ معجزہ بھی عجب اپنے دستگیر کا ہے

ابھی وہ عہدِ جوانی رشِیدؔ خواب ہؤا
کہ رنگ پھیکا پڑا وقت کی لکیر کا ہے
*
رکھیں گے دل کے قریں تم کو، دور مت جاؤ
سہارا کون بنے گا حضور، مت جاؤ

تمہیں تو اور کہیں بھی سکوں ملے گا مگر
اجاڑ دو گے وفا کا سرور، مت جاؤ

سفر کا سلسلہ جاری رہے مشقت سے
ملے گی ہم کو بھی منزل ضرور، مت جاؤ

سبب تو ہو گا تمہارے برا منانے کا
ہمیں بتاؤ ہمارا قصور، مت جاؤ

پھر آج جلوۂِ یزداں کی مانگ ہے لوگو
صدا سنے گا یہاں سے بھی، طورؔ مت جاؤ

یہاں کے لوگ حسینوں سے بیر رکھتے ہیں
تمہارے رخ سے جھلکتا ہے نور، مت جاؤ

میں کہہ رہا تھا کسی دلپذیر ہستی سے
تمہیں بہشت ہو، جنّت کی حُور مت جاؤ

سفر میں کتنے مسائل کا سامنا ہو گا
کروں گا کیسے اکیلے عبور، مت جاؤ

بدن پہ زخم ہیں جتنے وہ ڈھانپ کر رکھ لو
اب اس کے سامنے تو چُور چُور مت جاؤ

بلائیں راستہ روکے کھڑی ملیں گی تمہیں
نہیں ہے وقت کا تم کو شعور، مت جاؤ

چلے ہو روٹھ کے حسرتؔ کہاں، کہ تم سے ہے
محبّتوں کا، وفا کا غرور، مت جاؤ

مزید خبریں