لاہور(روشن پاکستان نیوز)پاکستانی فلم ’’گوگالاہوریا‘‘میں پولیس اور ماں کا منفی کرداردکھانے پرفلمی شائقین برس پڑے اور کہا ہے کہ ایسی فلموں کا نہ صرف فلم انڈسٹری میں بلکہ معاشرے میں بھی قلع قمع کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ فلم میں پولیس کا منفی کرداردکھا کر پولیس کوبھی بدنام کیاجارہا ہے اور معاشرے میں زہر گھولتا یہ اقدام پروان چڑھ رہا ہے جس سے نہ صرف معاشرے میں جگ ہنسائی ہورہی ہے بلکہ عالمی سطح پر بھی ملک پاکستان اور اس کی پولیس کو ایک فلم کے ذریعے بدنام کرنے کی مذموم کوشش کی جارہی ہے۔
تفصیلات کے مطابق پاکستانی فلم ’’گوگالاہوریا‘‘میں پولیس اور ماں کا منفی کرداردکھانے پرفلمی شائقین برس پڑے اور فلم پروڈیوسر کو کھری کھری سنادیں۔
فلمی شائقین کے مطابق ایسی فلمیں نا صرف معاشرے میں پولیس کے لئے نفرت کا باعث بنتی ہیں بلکہ کی مجرم بھی ا س عمل کو اپنا کر فائدہ اٹھانے میں کامیاب ہوسکتے ہیں،ایسی فلموں کی نہ صرف پاکستانی فلم انڈسٹری میں بلکہ معاشرے میں بھی اس کا قلع قمع کرنا چاہئے۔
فلمی شائقین کہتے ہیں کہ ایسے پولیس کا منفی کرداردکھا کر پولیس کوبھی بدنام کیاجارہا ہے اور معاشرے میں زہر گھولتا یہ اقدام پروان چڑھ رہا ہے جس سے نہ صرف معاشرے میں جگ ہنسائی ہورہی ہے بلکہ عالمی سطح پر بھی ملک پاکستان اور اس کی پولیس کو ایک فلم کے ذریعے بدنام کرنے کی مذموم کوشش کی جارہی ہے۔
شائقین کے مطابق فلم سنسر بورڈ فلم کی ریلیز کی منظوری دینے سے پہلے اسے ہر طرح سے جانچا کرے تاکہ معاشرے میں ہمارے اداروں ،یا قومی شخصیات کے خلاف کسی قسم کا پروپیگنڈا نہ ہو،۔
فلمی پرستار وں نے کہاکہ چند ٹکوں کی خاطر وہ اپنے ملک پاکستان،اس کی پولیس اور دیگر ایسے اداروں کو بدنام کرنے کی کوئی بھی کوشش کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔
مزیدپڑھیں:الیکشن کمیشن کی جانب سے قومی اسمبلی کے لیے تازہ ترین پارٹی پوزیشنز شیئر کر دیں گئیں
ہم چند پیسوں کے لئے بک جاتے ہیں اور اپنا منفی کرداردنیا کے سامنے رکھ دیتے ہیں جس سے اپنے ملک میں تو کیا بیرون ممالک میں بھی پاکستانیوں کو عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا اور اس کی سب سے اہم وجہ یہی ہے کہ ہم خود اس بگاڑکو معاشرے میں اور دنیا بھر میں پھیلا دیتے ہیں ۔
ا ن کا کہنا تھا کہ فلم سنسر بورڈ اور مقامی صوبائی اورمرکزی حکومتوں کے عہدیداراس بات کا آئندہ خیال رکھیں کہ ایسی کوئی بھی منفی چیز یا کردار پاکستان یا باہر کے ممالک میں نہ جائے اور ہمارے اداروں کی نہ صرف اپنے معاشرے میں بلکہ دنیا بھر میں بھی عزت ہو۔
فلمی شائقین نے یہ بھی کہا کہ ایسے مثبت کردار پر مبنی فلمیں بنائی جائے تو معاشرے میں اصلاح کا باعث بنیں اور اس سے ہر طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والے افرادبھرپور فائدہ اٹھا ئیں۔
یادرہے کہ فلم گوگالاہور یامیں پولیس کو رشوت لیتے اور امیرلوگوں کی گاڑیوں کے دروازے کھولتے دکھایاگیا ہے جبکہ فلمی سین میں یہ بھی ہے کہ امیرلوگ تھانے میں آکر پولیس آفیسر کی کرسی پر بیٹھ کر رشوت دیکر اپنی مرضی کے کام کروا رہے ہیں جس سے معاشرے میں منفی تاثر جاتا ہے اورلوگ حقیقت میں بھی ایسے ہی کرداراداکرنے کی کوشش کرتے ہیں اور پیسے کے زور پر ناحق فیصلے کرواتے اور بے گناہ لوگوں کو قتل کرنے کی بولیاں لگاتے ہیں۔
واضح رہے کہ مذکورہ فلم کے فلمساز محمد الیاس پپو گجر اور غلام محی الدین ہیں،نغمات کی ریکارڈنگ بھٹی سٹوڈیو میں ہوئی تھی،ان کی موسیقی طافو نے ترتیب دی اور نغمہ نگار الطاف باجوہ ہیں۔
کاسٹ میں معمر رانا ،حیدر سلطان،مہروخان، دیا جٹ، ساجد اور شفقت چیمہ کے علاوہ دیگر فنکار شامل ہیں۔
اس کی کہانی ناصر ادیب نے لکھی ہے جبکہ گلوکارہ نصیبو لال نے ہدایتکار مسعود بٹ کی پنجابی فلم گوگا لاہوریا کے گانے ریکارڈ کرا ئے ۔
پنجابی کلچرل فلم بنائی گئی جو فلمی شائقین کو ایک اچھی تفریح مہیا نہیں کرسکی بلکہ پولیس اور عظیم ہستی ماں کے منفی کردارکوپروموٹ کرنے کی کوشش کی گئی ہے جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔