تحریر: داؤد درانی
دنیا کی تاریخ میں بہت سے مظلوموں کے قصے درج ہیں، مگر جو ظلم فلسطینی قوم پر گزشتہ پچھتر برسوں سے ڈھایا جا رہا ہے، وہ انسانی تاریخ کے بدترین المیوں میں سے ایک ہے۔ اسرائیل کی ناجائز ریاست کے قیام سے لے کر آج تک فلسطینیوں کو اپنے ہی وطن میں غلام بنا دیا گیا ہے۔ ان کے گھروں، زمینوں اور نسلوں پر قبضہ کر کے انہیں مہاجر بننے پر مجبور کیا گیا، لیکن افسوس کہ عالمِ اسلام کے اربوں افراد اور درجنوں مسلم حکومتیں اس سفاکیت پر محض تماشائی بنی ہوئی ہیں۔
اسرائیل کا ظلم روز بہ روز بڑھتا جا رہا ہے۔ غزہ کی تباہ شدہ عمارتوں میں ملبے تلے دبے لاشوں کی تصویریں انسانیت کے ضمیر کو جھنجھوڑ دینے کے لیے کافی ہیں، مگر دنیا کے طاقتور ممالک اپنی آنکھوں پر پٹی باندھے بیٹھے ہیں۔ اقوام متحدہ کی قراردادیں محض کاغذی حیثیت رکھتی ہیں۔ امریکہ اور اس کے اتحادی اسرائیل کے لیے کھلے عام حمایت کا اعلان کرتے ہیں۔ یورپی ممالک انسانی حقوق کی بات تو کرتے ہیں، لیکن جب بات فلسطین کی آتی ہے تو ان کا ضمیر سو جاتا ہے۔
اسلامی دنیا میں اگر کوئی حقیقی طاقت اسرائیل کو روک سکتی ہے تو وہ پاکستان، ایران اور ترکی جیسے ممالک ہیں۔ لیکن افسوس کہ یہ ممالک باہمی اختلافات اور بیرونی دباؤ کے باعث متحد نہیں ہو پاتے۔ ایران پر طویل معاشی پابندیاں اس کی دفاعی طاقت کو کمزور کر چکی ہیں، ترکی نیٹو کا حصہ ہونے کے باعث امریکی پالیسیوں سے مکمل آزاد نہیں، جبکہ پاکستان معاشی بدحالی اور سیاسی عدم استحکام کا شکار ہے۔
پاکستان بلاشبہ ایک ایٹمی قوت ہے اور امتِ مسلمہ کے لیے امید کی واحد کرن ہے۔ اسرائیل ہمیشہ سے پاکستان کے ایٹمی پروگرام سے خوفزدہ رہا ہے، کیونکہ اسے معلوم ہے کہ اگر کبھی عالمِ اسلام ایک قیادت کے زیرِ سایہ متحد ہوا تو وہ قیادت پاکستان کے ہاتھ میں ہوگی۔ اسی خوف نے اسرائیل کو بھارت کے ساتھ گٹھ جوڑ پر مجبور کیا، تاکہ پاکستان کو ہر میدان میں کمزور کیا جا سکے۔ معاشی دباؤ، سیاسی انتشار، اور عالمی مالیاتی اداروں کے شکنجے میں جکڑ کر پاکستان کو اتنا مجبور کر دیا گیا ہے کہ وہ اپنی آزاد خارجہ پالیسی پر عمل نہیں کر سکتا۔
آج عالمِ اسلام کو جو سب سے بڑا مسئلہ درپیش ہے وہ غیرتِ ایمانی کی موت ہے۔ ہمارے حکمرانوں کی زبانیں تو فلسطین کے حق میں بیانات دیتی ہیں، مگر ان کے ہاتھ عملی قدم اٹھانے سے لرزتے ہیں۔ عرب ممالک جن کے پاس دنیا کی سب سے بڑی تیل کی دولت ہے، وہ امریکہ کے اشارے پر چلنے پر مجبور ہیں۔ امتِ مسلمہ کی یہ بے حسی دراصل وہ سب سے بڑی شکست ہے جو اسرائیل نے بغیر جنگ کے ہمیں دی ہے۔
حماس نے جب 7 اکتوبر کے حملے سے اسرائیل کے خلاف مزاحمت کا آغاز کیا، تو اس کے پیچھے ایک جذبۂ حریت کارفرما تھا، لیکن شاید حماس کو اندازہ نہیں تھا کہ اس کے بعد پورا غزہ ملبے کا ڈھیر بن جائے گا اور دنیا کے ضمیر پر کوئی اثر نہیں ہوگا۔ اسرائیل نے اس حملے کو بہانہ بنا کر معصوم بچوں، عورتوں اور بوڑھوں پر ایسی بمباری کی کہ انسانی تاریخ شرمندہ ہو گئی۔ لاکھوں افراد بے گھر، زخمی اور یتیم ہو گئے۔ ساٹھ ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں اور دنیا خاموش تماشائی ہے۔
یہ سوال اپنی جگہ قائم ہے کہ اگر عالمِ اسلام اپنی غیرت اور اتحاد کو جگانے میں ناکام رہا تو آنے والی نسلیں ہمیں کس نام سے یاد کریں گی؟ کیا ہم صرف سوشل میڈیا پر احتجاج کرنے والی قوم رہ جائیں گے؟ کیا ہمارے حکمران صرف بیانات دینے اور مذمتی قراردادیں پاس کرنے تک محدود رہیں گے؟
ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلم دنیا اب خوابِ غفلت سے جاگے۔ پاکستان، ایران، ترکی، سعودی عرب اور دیگر مسلم ممالک کو کم از کم ایک مشترکہ اسلامی دفاعی اتحاد تشکیل دینا چاہیے جو نہ صرف فلسطین بلکہ کسی بھی مظلوم مسلمان قوم کے تحفظ کے لیے عملی کردار ادا کرے۔ جب تک ہم خود کو معاشی، عسکری اور سفارتی طور پر مضبوط نہیں کریں گے، تب تک فلسطین جیسے سانحات جاری رہیں گے۔
آخر میں یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ حماس کو بھی حالات کے تناظر میں حکمت سے کام لینا چاہیے۔ اگر جنگ کا نتیجہ صرف معصوم جانوں کی قربانی اور تباہی ہے تو پھر جنگ بندی ہی بہتر راستہ ہے۔ لیکن یہ جنگ بندی صرف کمزور فریق کے سر نہیں تھوپی جانی چاہیے بلکہ عالمی طاقتوں کو اسرائیل پر بھی دباؤ ڈالنا ہوگا کہ وہ ظلم کا سلسلہ بند کرے اور فلسطینیوں کے حقِ خود ارادیت کو تسلیم کرے۔
فلسطین کی آزادی صرف فلسطینیوں کا نہیں، بلکہ پوری امتِ مسلمہ کا امتحان ہے۔ اگر آج ہم نے اپنی صفوں میں اتحاد پیدا نہ کیا تو کل تاریخ ہمیں بھی ان مردہ ضمیروں میں شمار کرے گی جنہوں نے مظلوموں کے خون پر خاموشی اختیار کی۔