منگل,  07 اکتوبر 2025ء
ہول سیل مارکیٹ اور پرچوں مارکیٹ میں فرق
ضلع حافظ آباد میں ستھرا پنجاب

تحریر: شوکت علی وٹو
Shoukatwatto@gmail.com

حکومت پنجاب کی جانب سے بڑھتی ہوئی قیمتیں اور ان سے پیدا ہونے والے مسائل سے نبٹنے کے لیے کوئی واضع حکمت عملی سامنے نہیں آ رہی، جس سے عوام کے لیے مسائل مسلسل بڑھ رہے ہیں جس کا نقصان ہر طرح سے حکومتی سطح پر کیے جانے اقدامات کو پہنچتا ہے زائد جرمانے ہوں یا گراں فروشی، حکومت پنجاب ان سے نمٹنے کے لیے بے بس نظر آتی ہے.ان کو نمٹنے کے لیے عملی اقدامات کرنے سمیت چیک اینڈ بیلنس رکھنا بہت ضروری ہے. عوام مہنگائی کی چکی میں پس رہی ہے جس سے نکالنا حکومت پنجاب کی ذمہ داری ہے.سبزی، پھل سے لیکر اشیائے ضروریہ خوردونوش، گوشت، اینٹ وغیرہ کسی پر بھی چیز پر حکومت کا کنٹرول نہیں ہے سبزی فروٹ منڈی میں ریٹ زائد ہونے پر دوکاندار کس طرح کم ریٹ پر سبزی فروٹ مہیا کر سکتے ہیں، اسی طرح گوشت کے لیے گائے بھینس وغیرہ جانور صحت مند ہونا ضروری ہیں سرکاری ریٹ 850 روپے پر گوشت بیچ کر جانور کی خرید کی رقم پوری کرنا نا ممکن ہے مارکیٹ میں 1000 روپے 1100 روپے بک رہا ہے قصابوں کا نمائندہ ریٹ طے کرواتے وقت کمیٹی کا ممبر ہوتا ہے اسی طرح بکرا 1700 روپے فی کلو ہے جبکہ 2200 روپے سے لیکر 2400 روپے کلو بک رہا ہے جو بہت مہنگا ہے شہر کے قصابوں کے مطابق ضلعی انتظامیہ کے مقررہ کردہ ریٹس پر گوشت بیچنا ممکن نہیں ہے.پرائس مجسٹریٹس و حال ہی میں بننے والی پیرا فورس جرمانے کر سکتی ہے یا پھر دوکان سیل کر کے استغاثہ جات دے سکتی ہے جو مسائل کا حل نہیں ہے لائیو اسٹاک، حکومت پنجاب جانوروں منڈیوں کو گوشت کے حساب سے زندہ جانوروں کے وزن کے حساب سے ریٹس مقرر کرتے ہوئے مقررہ ریٹس پر زندہ جانوروں کی فروخت کو یقینی بنایا جائے، اسی طرح برائلر مرغی کے ریٹس کے بھی مسائل ہیں جو ہول سیل مارکیٹ اور پرچوں مارکیٹ ریٹس مطابقت نہیں رکھتے،سبزی و فروٹ منڈی کے ریٹس پر حقیقی ریٹ لسٹ کا جاری ہونا ضروری ہے تاکہ پرچون سبزی و فروٹ بیچنا مناسب قیمت پر بیچ کر رزق حلال کما سکیں،اشیائے ضروریہ، خوردونوش وغیرہ جس میں دالیں و دیگر گھریلو استعمال کی اشیاء کی قیمتیں بھی ہول سیل مارکیٹ میں کنٹرول فی الوقت ممکن نہیں ہے اور پرچون مارکیٹ میں اشیاء ضلعی انتظامیہ کی دی گی ریٹ لسٹ پر بیچنا ممکن نہیں ہے انجمن تاجران کے لوگ بھی اس کمیٹی کے ممبرز ہیں جو ڈپٹی کمشنر کی سربراہی بنائی جاتی ہے جو ریٹ لسٹ جاری کرتی ہے ریٹ لسٹ پرچون کی دوکانات پر آویزاں لسٹ میں بیشتر دالیں و دیگر اشیاء ملنا ناممکن ہے، یہاں پر بھی ہول سیل مارکیٹ کا چکر ہے کہ وہاں اشیاء ضلعی انتظامیہ کی ریٹ لسٹ کے مطابق نہیں ہیں اس میں ضلعی انتظامیہ کی بجائے تاجران کے نمائندوں اور شہری جو پرائس کمیٹی کے ممبران ہیں جو اختلافی نوٹ نہیں دیتے.بلڈنگ میٹیریل کے حوالے سے بات کی جائے تو اینٹ بنیادی چیز ہے جس کا ریٹ انتہائی زائد ہیں مٹی سے بننے والی اینٹ بہت مہنگی ہے تقریباً 16 ہزار سے 17 ہزار روپے فی ہزار کی اینٹ بک رہی ہے ضلع کے 100 سے زائد بھٹہ خشت پر پکی رسید کے بغیر اعدادوشمار کے بیچ رہے ہیں جس سے بھٹہ خشت کے مالکان مسلسل دولت کما رہے جبکہ عوام کو اس حوالے سے کوئی ریلیف ملتا دیکھائی نہیں دیتا،ضلعی انتظامیہ اپنے دیے گئے ریٹ لسٹ پر عملدرآمد نہیں کروا سکتی تو ان کو پوچھنے والا کوئی نہیں ہے اب تو باقاعدہ ایک اتھارٹی بنا دی گی ہے جسے پیرا فورس کہا جاتا ہے شہری ہر خریداری پر پکی رسید طلب کریں تاکہ حکومت کو پورا ٹیکس ملے جس کے فوائد عام شہریوں کو ملیں گے اور کچی رسید جو کاغذ پر دی جاتی ہے.کچی رسید پر زائد منافع کارباری حضرات کو ہوتا ہے ایک ٹیکس سے بچت دوسرا شہریوں کو کوئی ریلیف نہیں مل پاتا، حکومت پنجاب کوئی ایسا میکنزم بنائے جس سے ہول سیل مارکیٹ مکمل طور پر حکومت کے کنٹرول میں ہو، جس کا فائدہ سب کو ملنا ہے اتنا مشکل کام نہیں ہے جتنا بنا دیا جاتا ہے، گراں فروشی پر دوکاندار کو جو جرمانہ ہوتا ہے وہ جرمانہ دوکاندار شہریوں کے جیب سے نکالتا ہے جس کی مثال ایک دو دن پہلے پیرا فورس کی کارروائیوں کے بعد بھی دوکانداروں، قصابوں نے من مرضی کے ریٹس لیکر گوشت و دیگر سامان فروخت کیا،پنجاب کے ہر ضلع میں حکومت پنجاب کے اربوں روپے تنخواہیں سمیت مراعات دیتی ہے تاکہ عوام کو ریلیف مل سکے.تا کہ حکومت کی ساکھ بہتر ہو، یہاں ساکھ بہتر ہونے کی بجائے مذید ساکھ متاثر ہو رہی یے کوئی بھی حکومت ہو اس کی کوشش ہوتی ہے وہ اپنی عوام کو زیادہ سے زیادہ ریلیف دے، جو سابق ادوار کے مطابق تجربہ سے بات سامنے آئی ہے حکومتی محکموں کی پسند نا پسند کے پیش نظر چھوٹے دوکانداروں کو تختہ مشق بنا کر ان کو مسلسل جرمانے کیے جاتے ہیں افسران بڑی گاڑیوں میں سوائے جرمانوں کے کوئی ریلیف دینے سے قاصر ہوتے ہیں.حکومت کی ساکھ زائد جرمانوں سے خراب ہوتی ہے بہتر نہیں ہوتی، ساکھ اس وقت بہتر ہوتی ہے جب عام لوگوں کو کنٹرول ریٹس پر اشیائے خوردونوش ضروریہ ملیں، لیکن یہاں جرمانوں کو کارکردگی سے جوڑا جاتا ہے.جرمانوں کا بوجھ عوام پر پڑتا ہے سرکاری افسران و ملازمین کام کرنے کو احسان سمجھتے ہیں اگر فرض سمجھتے تو عوام کو ریلیف ضرور مل رہا ہوتا، جس طرح مبینہ مصنوعی ریٹ لسٹ جاری ہوتی ہے اس سے مذید مسائل بڑھتے ہیں ان تمام باتوں کا حل ہول سیل مارکیٹ کو کنٹرول کرنا اور سٹاکسٹ کو کنٹرول کرنا ہے ورنہ پاکستان بننے سے لیکر حال تک عوام کو مستحکم ریٹس ملنا ناممکن رہا ہے وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف اس وقت پنجاب کی عوام کو ریلیف دینے کے لیے کوشاں ہیں وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف اگر بیوروکریسی سمیت ملازمین کو فیلڈ میں نکلنے سمیت ہول سیل مارکیٹ کو کنٹرول کرنا ہو گا ورنہ ماضی کی طرح عوام ہی بھگتے گی………

مزید خبریں