جمعرات,  02 اکتوبر 2025ء
بھارت کا متعصبانہ رویہ!
کالم میں اور میرا دوست

کرکٹ برصغیر میں محض ایک کھیل نہیں بلکہ ایک جنون ہے۔ یہ وہ کھیل ہے جو لاکھوں دلوں کی دھڑکن ہے، جس کے ایک چھکے اور ایک چوکے پر گلیاں، چوراہے اور بیٹھکیں گونج اُٹھتی ہیں۔ میں اور میرا دوست اکثر کرکٹ پر بات کرتے ہیں، خاص طور پر جب کوئی بڑا ایونٹ ہونے والا ہو۔ اس سال ایشیا کپ 2025 کی گونج نے ہماری محفل کو اور زیادہ دلچسپ بنا دیا ہے۔ مگر افسوس یہ ہے کہ کرکٹ کے میدان میں سیاست کا سایہ پڑ گیا ہے، اور اس کے سب سے بڑے کردار بھارتی کرکٹ بورڈ کو قرار دیا جا رہا ہے۔

میرا دوست ہمیشہ کہتا ہے کہ کرکٹ وہ کھیل ہے جو دشمنیوں کو دوستیوں میں بدل سکتا ہے۔ 1978 میں جب پاکستان اور بھارت کے درمیان کرکٹ بحال ہوئی تو لاکھوں لوگ خوشی سے جھوم اُٹھے تھے۔ اسی طرح 2004 میں جب بھارتی ٹیم پاکستان آئی تو لاہور، کراچی اور راولپنڈی کی فضاؤں میں میلوں کا سا سماں تھا۔ مگر اب صورتحال بالکل بدل چکی ہے۔ بھارت نے کھیل کو کھیل رہنے کے بجائے اسے سیاسی ہتھکنڈوں کا حصہ بنا لیا ہے۔

ہماری گفتگو اکثر اس نکتے پر آ کر رکتی ہے کہ بھارتی کرکٹ بورڈ کا رویہ آخر اتنا متعصبانہ کیوں ہے؟ ایشیا کپ جیسے ٹورنامنٹ میں، جہاں پورے خطے کے عوام کی نظریں جمی ہوتی ہیں، بھارت نے ایک بار پھر سیاست کو ترجیح دی ہے۔ کبھی بہانہ سیکیورٹی کا بنایا جاتا ہے، کبھی یہ کہا جاتا ہے کہ حالات سازگار نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ بھارت نے اپنی حکومت کی پالیسیوں کو کھیل پر مسلط کر دیا ہے۔ یہ وہ رویہ ہے جو کھیل کے بنیادی فلسفے کے خلاف ہے۔
میرا دوست اکثر تلخی سے کہتا ہے: “بھائی، کرکٹ کو اگر یوں سیاست کی بھینٹ چڑھایا گیا تو وہ دن دور نہیں جب شائقین کا اعتماد بھی ٹوٹ جائے گا۔ لوگ سمجھیں گے کہ کھیل صرف طاقتور ملکوں کے مفاد میں ہے، عوام کی خوشی یا کھلاڑیوں کی محنت کی کوئی وقعت نہیں۔
آئی سی سی کہاں ہے؟

یہ وہ سوال ہے جو ہر شائقِ کرکٹ کے ذہن میں ہے۔

آئی سی سی کی ذمہ داری ہے کہ وہ کھیل کو کھیل رہنے دے۔ لیکن جب معاملہ بھارت کا ہو تو سب کی زبان گنگ ہو جاتی ہے۔ اگر کوئی چھوٹا ملک ایسا کرتا تو اب تک جرمانے، پابندیاں اور میچز کی تنسیخ ہو چکی ہوتیں۔ مگر بھارت کے لیے سب خاموش ہیں۔ یہ دوہرا معیار ناقابلِ قبول ہے۔
ہم دونوں اس بات پر متفق ہیں کہ اس وقت سب سے بڑی ذمہ داری انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (ICC) پر عائد ہوتی ہے۔ آئی سی سی کو یہ سوچنا ہوگا کہ اگر کوئی ملک بار بار کھیل کو سبوتاژ کرے، تو اس کے خلاف سخت ایکشن لینا چاہیے۔ ورنہ یہ روایت بن جائے گی کہ طاقتور بورڈز اپنی مرضی سے پورے کھیل کا مستقبل طے کریں گے۔

میرا دوست یہ مثال دیتا ہے کہ “اگر کوئی چھوٹا ملک ایسا کرتا تو اب تک اس پر جرمانے بھی لگ چکے ہوتے، میچز بھی چھین لیے گئے ہوتے، اور شاید اسے پابندیوں کا سامنا کرنا پڑتا۔ لیکن چونکہ معاملہ بھارت کا ہے، اس لیے سب خاموش ہیں۔ یہ دوہرا معیار ہے جو کھیل کے مستقبل کے لیے نقصان دہ ہے۔”

جب ہم گلی کوچوں میں کرکٹ کھیلنے والے بچوں کو دیکھتے ہیں تو دل خوش ہو جاتا ہے۔ ان بچوں کے خواب ہوتے ہیں کہ وہ بھی کبھی اپنی ٹیم کی نمائندگی کریں گے۔ لیکن جب وہ دیکھتے ہیں کہ بڑے ایونٹس سیاست کی وجہ سے متاثر ہوتے ہیں تو ان کے خواب بھی دھندلانے لگتے ہیں۔ ایشیا کپ صرف ایک ٹورنامنٹ نہیں بلکہ ایک امید ہے کہ اس کے ذریعے ایشیائی ملک ایک دوسرے کے قریب آئیں گے۔ مگر جب اس امید کو بار بار توڑا جاتا ہے تو یہ خطے کے عوام کے ساتھ زیادتی ہے۔

پاکستان کا موقف

پاکستان نے ہمیشہ کھیل کو سیاست سے الگ رکھنے کی کوشش کی ہے۔ ہماری حکومتیں اور کرکٹ بورڈ بارہا یہ پیغام دیتے آئے ہیں کہ کھیل سفارتکاری کا بہترین ذریعہ ہے۔ پاکستان نے بھارت سمیت ہر ٹیم کو خوش آمدید کہا ہے۔ حتیٰ کہ مشکل حالات کے باوجود ہم نے اپنی سرزمین پر بین الاقوامی کرکٹ بحال کی۔ لیکن اس کے باوجود بھارت کا رویہ ناقابلِ فہم ہے۔

میرا دوست اکثر کہتا ہے: “پاکستان کا کردار ہمیشہ مثبت رہا ہے، لیکن دنیا اسے وہ پذیرائی نہیں دیتی جو دینی چاہیے۔ اگر بھارت اپنی ضد پر قائم رہے تو پھر پاکستان کو بھی سخت موقف اختیار کرنا ہوگا۔”

ہماری گفتگو اکثر میڈیا کے کردار پر بھی آ جاتی ہے۔ بھارتی میڈیا کھیل کو سیاست سے جوڑنے میں پیش پیش رہتا ہے۔ عوام کے جذبات کو بھڑکایا جاتا ہے، اور نفرت کو ہوا دی جاتی ہے۔ اس کے برعکس پاکستانی میڈیا اور عوام ہمیشہ کھیل کو محبت، دوستی اور امن کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ یہی فرق ہے جو دونوں ممالک کے رویوں میں نمایاں دکھائی دیتا ہے۔

میرا دوست مسکرا کر کہتا ہے: “یاد ہے جب 2011 کا ورلڈ کپ سیمی فائنل بھارت میں ہوا تھا؟ ساری دنیا نے دیکھا کہ پاکستانی عوام نے شکست کے باوجود کھیل کو تسلیم کیا۔ یہ ہے اصل اسپورٹس مین اسپرٹ۔ لیکن بھارت شاید یہ سبق کبھی نہ سیکھ سکے۔”

میرے دوست کی رائے ہے کہ پاکستان کو چاہیے کہ وہ اس مسئلے کو عالمی سطح پر بھرپور انداز میں اٹھائے۔ صرف بیانات دینے سے بات نہیں بنے گی۔ آئی سی سی میں باضابطہ شکایات، قانونی راستے اور اتحادی ممالک کو ساتھ ملا کر دباؤ ڈالنا ضروری ہے۔ ساتھ ہی عوام اور میڈیا کو بھی چاہیے کہ وہ اپنی آواز بلند کریں تاکہ دنیا کو بتایا جا سکے کہ کھیل پر سیاست مسلط کرنا انصاف کے منافی ہے۔

میرا دوست اس نتیجے پر پہنچا ہیں کہ کھیل کو سیاست سے آلودہ کرنا نہ صرف کھلاڑیوں کے ساتھ ناانصافی ہے بلکہ کروڑوں شائقین کے خوابوں کے ساتھ بھی کھیلنے کے مترادف ہے۔ بھارتی کرکٹ بورڈ کو سوچنا چاہیے کہ کرکٹ دوستی اور امن کا پل ہے، دشمنی کا ہتھیار نہیں۔ اگر بھارت اپنی روش پر قائم رہا تو نقصان صرف پاکستان یا ایشیا کپ کا نہیں بلکہ پوری کرکٹ دنیا کا ہوگا۔

آئی سی سی کو چاہیے کہ وہ فوری طور پر مداخلت کرے اور اس بات کو یقینی بنائے کہ کھیل صرف کھیل رہے۔ کیونکہ اگر کھیل کو سیاست کی نذر کیا گیا تو آنے والی نسلیں ہمیں کبھی معاف نہیں کریں گی۔

مزید خبریں