جمعرات,  02 اکتوبر 2025ء
ٹک ٹاک فحاشی کا مرکز بن گیا، نئی نسل اخلاقی زوال کا شکار

لاہور (شہزاد انور ملک)  پاکستان میں سوشل میڈیا ایپلیکیشنز بالخصوص ٹک ٹاک نے معاشرتی اقدار کو جس حد تک متاثر کیا ہے، اس پر ماہرین اور سماجی حلقے گہری تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔ ایک طرف جہاں اس پلیٹ فارم نے نوجوانوں کو اظہار رائے اور تخلیقی صلاحیتوں کے اظہار کا موقع فراہم کیا، وہیں دوسری طرف اس کے منفی پہلو روز بروز شدت اختیار کرتے جا رہے ہیں۔

ٹک ٹاک پر اب ایسے لائیو سیشنز عام ہو چکے ہیں جہاں لڑکے اور لڑکیاں گھروں میں بیٹھ کر عوامی سطح پر ایک دوسرے کے ساتھ نہ صرف انتہائی غیر اخلاقی زبان استعمال کرتے ہیں بلکہ عریانی اور فحاشی کا مظاہرہ بھی کھلے عام کرتے ہیں۔ “فنشمنٹ” جیسے گیمز یا چیلنجز کے نام پر جو کچھ دکھایا جا رہا ہے، وہ نہ صرف اسلامی معاشرتی اقدار کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے بلکہ نئی نسل کے اخلاق و کردار پر بھی گہرے منفی اثرات ڈال رہا ہے۔

معاشرتی ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں کبھی بھی اس سطح کی فحاشی عوامی سطح پر نہیں دیکھی گئی، جیسی اب ٹک ٹاک جیسے پلیٹ فارمز پر دیکھنے کو مل رہی ہے۔ اس کے ذمہ دار صرف یہ نوجوان نہیں بلکہ ان کے خاندان، بالخصوص والدین بھی ہیں، جو اپنی اولاد پر نظر نہیں رکھتے اور ان کی تربیت میں کوتاہی برتتے ہیں۔ گھر کے مرد، والد یا بھائی، اگر اس معاملے میں سنجیدگی سے کردار ادا نہ کریں تو معاشرہ مزید تنزلی کا شکار ہو گا۔

زیادہ تر نوجوان صرف مالی مفاد کی خاطر اپنی اور دوسروں کی عزت کو داؤ پر لگا رہے ہیں۔ انہیں نہ اپنی عزت کی پروا ہے اور نہ ہی اپنی فیملیز یا معاشرے کی۔ ٹک ٹاک اب صرف ایک سوشل میڈیا پلیٹ فارم نہیں رہا بلکہ یہ نوجوان نسل کے لیے ایک “نشہ” بن چکا ہے، جس سے ان کا ذہن، رویہ اور طرز زندگی شدید متاثر ہو رہا ہے۔

مزید پڑھیں: امریکا اور بائٹ ڈانس کے درمیان معاہدہ: ٹک ٹاک کا کنٹرول امریکی بورڈ کے سپرد

ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت پاکستان، پی ٹی اے، اور دیگر متعلقہ ادارے فوری طور پر اس سلسلے میں اقدامات کریں، ضابطہ اخلاق تشکیل دیں، اور ٹک ٹاک پر ہونے والے لائیو سیشنز کی کڑی نگرانی کریں۔ اس کے ساتھ ساتھ دینی اور تعلیمی اداروں کو بھی چاہیے کہ وہ نوجوانوں میں اخلاقی تربیت کو فروغ دیں، تاکہ معاشرہ مزید بے راہ روی کا شکار نہ ہو۔

اگر فوری طور پر اس روش کو نہ روکا گیا تو پاکستان کا اخلاقی مستقبل شدید خطرے میں پڑ سکتا ہے۔ اس وقت ذمے داری ہر فرد اور ہر گھرانے پر عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنی نئی نسل کی رہنمائی کریں، ورنہ کل کو پچھتاوے کے سوا کچھ باقی نہیں بچے گا۔

مزید خبریں