اسلام آباد(روشن پاکستان نیوز) ارٹیفیشل انٹیلیجنس (اے آئی) کی ٹیکنالوجی نے جہاں دنیا بھر میں ترقی اور آسانی کی نئی راہیں کھولی ہیں، وہیں اس کے غلط استعمال نے کئی سنجیدہ خدشات کو جنم دیا ہے۔ خاص طور پر ویڈیو اور تصاویر میں مصنوعی ذہانت کا استعمال اب اس حد تک پہنچ چکا ہے کہ کسی بھی شخص، خاص طور پر مشہور شخصیات، کی آواز، چہرے اور انداز کو ہو بہو نقل کرکے جعلی مواد تیار کیا جا سکتا ہے۔ اسے “ڈیپ فیک” کہا جاتا ہے، اور یہ ویڈیوز اس قدر حقیقت سے قریب ہوتی ہیں کہ عام فرد کے لیے ان میں فرق کرنا تقریباً ناممکن ہو جاتا ہے۔
حالیہ مہینوں میں پاکستان سمیت دنیا بھر میں کئی مشہور شخصیات کے ڈیپ فیک ویڈیوز سوشل میڈیا پر گردش کرتی رہی ہیں جن میں ان شخصیات کو ایسے الفاظ یا حرکات کرتے دکھایا گیا جو انہوں نے کبھی نہیں کیں۔ اس کے نتیجے میں نہ صرف ان کی عزتِ نفس کو ٹھیس پہنچی بلکہ ان کے مداحوں اور عوامی تاثر پر بھی منفی اثرات مرتب ہوئے۔ بعض ویڈیوز میں تو مشہور اداکاراؤں کو نازیبا مناظر میں پیش کیا گیا جو کہ سراسر جھوٹ اور بد نیتی پر مبنی تھا۔
ڈیپ فیک ٹیکنالوجی کے ذریعے جعلی بیانات، سیاسی تقاریر، یا نامناسب حرکات کے مناظر بنا کر نہ صرف شخصی کردار کشی کی جاتی ہے بلکہ بعض اوقات اسے سیاسی یا مذہبی منافرت پھیلانے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ اس سے نہ صرف معاشرتی انتشار بڑھتا ہے بلکہ عوامی اعتماد بھی ٹوٹتا ہے۔
بدقسمتی سے پاکستان میں اس حوالے سے قانون سازی یا اس پر عملدرآمد بہت محدود ہے۔ اگرچہ سائبر کرائم ایکٹ موجود ہے، لیکن ڈیپ فیک جیسی نئی ٹیکنالوجیز کو مؤثر طریقے سے کنٹرول کرنے کے لیے نہ تو خاطر خواہ قوانین بنائے گئے ہیں اور نہ ہی متعلقہ اداروں کے پاس ضروری ٹیکنالوجی یا مہارت موجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کئی بار ایسے معاملات رپورٹ ہونے کے باوجود عملی کارروائی نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔
اے آئی کا مثبت استعمال تعلیم، صحت، ٹریفک مینجمنٹ، زراعت، اور دیگر شعبہ جات میں بہتری لا سکتا ہے، لیکن اگر اس پر مناسب ضابطہ نہ ہو تو یہ معاشرتی اقدار، ساکھ، اور ذہنی سکون کے لیے شدید خطرہ بن سکتا ہے۔ خاص طور پر خواتین کو اس سے زیادہ خطرہ لاحق ہوتا ہے کیونکہ ان کی تصاویر یا ویڈیوز کو آسانی سے چوری کرکے کسی بھی غیر اخلاقی یا فحش مواد میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔
اس خطرناک رجحان کو روکنے کے لیے ضروری ہے کہ حکومت فوری طور پر ڈیپ فیک اور مصنوعی ذہانت کے غلط استعمال کے خلاف واضح، جامع اور سخت قوانین بنائے۔ اس کے ساتھ ساتھ عوامی شعور بیدار کرنے کے لیے میڈیا، تعلیمی ادارے، اور سوشل پلیٹ فارمز پر آگاہی مہمات چلائی جائیں تاکہ لوگ جعلی مواد کو پہچان سکیں اور اس کے پھیلاؤ کا حصہ نہ بنیں۔
انفرادی سطح پر بھی ہمیں محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ اپنی تصاویر، ویڈیوز، اور ذاتی معلومات کو غیر ضروری طور پر سوشل میڈیا پر شیئر کرنے سے گریز کریں، اور کسی بھی مشکوک ویڈیو یا خبر کو بغیر تحقیق کے آگے نہ بڑھائیں۔
اے آئی ایک طاقتور ٹیکنالوجی ہے، جو انسانیت کے لیے نعمت بھی بن سکتی ہے اور عذاب بھی۔ اس کا فیصلہ اب انسان کے استعمال اور نیت پر منحصر ہے۔