تحریر: عدیل آزاد، نوشہرہ
مقدمہ
عزیز دوستوں!
آج دنیا کے مختلف خطوں، خصوصاً وسط ایشیا، مشرقِ وسطیٰ اور جنوبی ایشیا میں جو کشیدگی اور جنگ و جدال کی صورتِ حال پائی جاتی ہے، وہ محض سیاسی تنازعات کا نتیجہ نہیں بلکہ اس کے پیچھے گہری روحانی، سیاسی اور اقتصادی طاقتیں کارفرما ہیں۔ فلسطین و اسرائیل کا تنازع، ایران و اسرائیل کی کشیدگی، بھارت و پاکستان کے مسائل — یہ سب عالمی اسٹیبلشمنٹ کے بڑے کھیل کا حصہ ہیں۔
امام شاہ ولی اللّٰہ کی روحانی بصیرت اور آج کا دور
امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ نے اپنی تعلیمات میں بارہا اس اندیشے کا اظہار کیا تھا کہ اگر مسلم امہ نے اپنی وحدت، علم، اور عدل پر مبنی نظام کو قائم نہ رکھا تو وہ ایک دن کفر کے نظام کے تابع ہو جائے گی۔ آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ تقریباً ہر مسلم ملک یا تو داخلی خلفشار کا شکار ہے یا کسی سپر پاور کے زیر اثر ہے۔ امام ولی اللہؒ کے مطابق جب ظلم کا نظام بڑھتا ہے اور حق کی آواز کمزور ہوتی ہے تو فتنوں کا دور شروع ہو جاتا ہے۔ ان کا عقیدہ تھا کہ جب امت مسلمہ اپنے اصل مقصد سے ہٹ جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس پر ایسی طاقتیں مسلط کر دیتا ہے جو اس کے ایمان، قیادت اور کردار کا امتحان لیتی ہیں۔
امام سندھی کی انقلابی فکر
امام عبیداللہ سندھیؒ نے استعمار اور سامراجی قوتوں کے خلاف کھلی بغاوت کا نظریہ پیش کیا۔ ان کے مطابق دین اور سیاست کا ایک ہونا ہی حق و باطل کے معرکے میں کامیابی کی کنجی ہے۔ آج ہم دیکھتے ہیں کہ عالمی ایجنڈا — خواہ وہ اسرائیل کا ہو، بھارت کا ہو یا مغربی طاقتوں کا — مسلم دنیا کو جغرافیائی طور پر تقسیم کر رہا ہے۔ مقامی حکومتوں کو سیکولر، مغرب نواز اور کٹھ پتلی بنا دیا گیا ہے۔ قومی جمہوریتیں ختم ہو چکی ہیں اور معاشی نظام سرمایہ دارانہ طاقتوں کے کنٹرول میں دے دیا گیا ہے۔
وسط ایشیا: عالمی جنگ کا ممکنہ میدان
وسط ایشیا اس وقت عالمی سیاست کا سب سے نازک اور حساس علاقہ بن چکا ہے۔ یہاں پر طاقتوں کا تصادم بنیادی طور پر چند اہم مقاصد کے گرد گھوم رہا ہے:
پہلا مقصد تیل اور گیس کے ذخائر پر کنٹرول حاصل کرنا ہے، دوسرا بیت المقدس اور فلسطین کا مسئلہ ہے جو مسلم امہ کی روحانی غیرت کا محور ہے۔ ایران کا بڑھتا ہوا اثر و رسوخ اور مزاحمتی بلاک کی مضبوطی بھی اس تصادم کا ایک اہم جزو ہے۔ سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کی بحالی کی کوششیں بھی اسی تناظر میں کی جا رہی ہیں۔
ایران و اسرائیل کی کشیدگی، حماس و اسرائیل کی جنگ، اور یمن، عراق و شام میں جاری پراکسیز — یہ سب کچھ ایک بڑی عالمی طاقت کی ہدایت اور مفاد کی روشنی میں ہو رہا ہے۔
امریکہ کی حکمتِ عملی
امریکہ اس وقت عالمی نظام میں ایک ’’ماسٹر پپٹیئر‘‘ (Master Puppeteer) کا کردار ادا کر رہا ہے۔ اس کی حکمت عملی یہ ہے کہ مسلم دنیا کو کبھی بھی استحکام نہ حاصل ہو۔ اس کا دوسرا ہدف اسرائیل کے تحفظ کو یقینی بنانا ہے، جبکہ تیسرا مقصد چین، روس اور ایران جیسے ممالک کے درمیان بننے والے ممکنہ اتحاد کو کمزور کرنا ہے۔ امریکہ مختلف ممالک میں پراکسی وارز کو ہوا دے کر اپنی گرفت برقرار رکھے ہوئے ہے، جیسے افغانستان میں طالبان، شام میں ریبیلز، اور فلسطین میں حماس اور فلسطینی اتھارٹی کے درمیان تقسیم۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنی معیشت، خاص طور پر ڈالر اکانومی، کو زندہ رکھنے کے لیے وسط ایشیا کی جنگی معیشت کو قائم رکھے ہوئے ہے۔
یورپ کا دوہرا معیار
یورپ انسانی حقوق کا علمبردار ہونے کا دعویٰ تو کرتا ہے، مگر اس کے رویے میں شدید تضاد ہے۔ جب روس یوکرین پر حملہ کرتا ہے تو یورپ چیخ اٹھتا ہے، مگر اسرائیل کے مظالم پر خاموشی اختیار کر لیتا ہے۔ بھارت کے زیر قبضہ کشمیر میں جاری انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر یورپ خاموش ہے، لیکن ایران میں حجاب کے قانون پر سخت ردعمل ظاہر کرتا ہے۔ مہاجرین کا بحران خود پیدا کرتا ہے اور پھر اسی بحران پر سیاست کرتا ہے۔ یورپ کا یہ رویہ درحقیقت نوآبادیاتی نظام کا جدید چہرہ ہے، جسے ہم نیو-کالونیل ازم (Neo-Colonialism) کہہ سکتے ہیں۔
عالمی اداروں کی خاموشی اور مفاد پرستی
عالمی سطح پر جو ادارے خود کو امن و انصاف کے محافظ کہتے ہیں، وہ درحقیقت بے اثر یا صرف علامتی مذمت تک محدود ہو چکے ہیں۔
او آئی سی (OIC) مسلم دنیا کا بڑا ادارہ ہونے کے باوجود صرف بیانات اور قراردادوں تک محدود ہو کر رہ گیا ہے۔ جب کشمیر یا فلسطین میں ظلم ہوتا ہے تو شدید مذمت کا بیان جاری کر دیا جاتا ہے، مگر کوئی عملی قدم، بائیکاٹ یا مشترکہ لائحہ عمل سامنے نہیں آتا۔ اس کی بنیادی وجہ OIC کے رکن ممالک کے درمیان سیاسی تقسیم اور آپس کی مخالفت ہے۔
اقوام متحدہ (UNO) کا مقصد تو عالمی امن اور انصاف کا قیام تھا، لیکن عملاً یہ سپر پاورز، خصوصاً امریکہ، کا ایک آلہ کار بن چکا ہے۔ روس کے یوکرین پر حملے پر تو فوری پابندیاں لگتی ہیں، مگر اسرائیل کے خلاف صرف قراردادیں پیش کی جاتی ہیں، جنہیں امریکہ ویٹو کر دیتا ہے۔ کشمیر جیسے مسائل صرف فائلوں تک محدود ہیں، زمین پر کوئی عملی اقدام نظر نہیں آتا۔
نیٹو (NATO) ایک فوجی اتحاد ہے جو صرف مغرب کے مفادات کے تحفظ کے لیے سرگرم ہے۔ اگر کہیں مغربی مفاد کو خطرہ ہو تو فوری فضائی حملے اور فوجی مداخلت ہوتی ہے، لیکن جب مسلم دنیا پر ظلم ہوتا ہے تو یہ تنظیم خاموشی اختیار کرتی ہے۔
نتیجہ اور لائحہ عمل
یہ تمام ادارے، جو بظاہر امن، انصاف اور انسانی حقوق کے محافظ ہیں، درحقیقت سامراجی اور جغرافیائی مقاصد کے حصول کے لیے استعمال ہونے والے کٹھ پتلی ادارے بن چکے ہیں۔ ان حالات میں مسلم امہ کو ان پر اندھا اعتماد کرنے کے بجائے اپنی آزاد، مضبوط اور متحد قیادت، مؤثر میڈیا، اور خودمختار سیاسی و معاشی نظام قائم کرنا ہو گا۔ خطے کے تمام دوست ممالک کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کر کے سامراجی قوتوں کی سازشوں کا مقابلہ کرنا چاہیے۔
اختتامیہ
اللہ تعالیٰ ہمیں حق کو پہچاننے، اس سے محبت کرنے، اور اس پر ڈٹ جانے کی توفیق عطا فرمائے۔
آمین یا رب العالمین۔