منگل,  16  ستمبر 2025ء
اسلام آباد میں دہلیز پر انصاف کا خواب، حقیقت یا فریب؟

اسلام آباد (ایم اے شام)  ملک کے خوبصورت ترین اور طاقت کے مرکز دارالحکومت اسلام آباد کے شہریوں کو انصاف کی فراہمی کے بلند و بانگ دعوے تو آئے روز سننے کو ملتے ہیں، مگر زمینی حقائق ان دعووں سے مکمل طور پر متصادم ہیں۔
وفاقی پولیس اور انتظامیہ کی جانب سے شہریوں کو “ان کی دہلیز پر انصاف” فراہم کرنے کا نعرہ حقیقت میں صرف ایک خوش کن خواب بن چکا ہے، جس کا زمینی سطح پر کوئی عملی مظاہرہ دکھائی نہیں دیتا۔

تھانوں کے چکر، رشوت اور بے بسی

روزانہ کی بنیاد پر شہری اپنے مسائل کے حل کے لیے تھانوں کے چکر کاٹنے پر مجبور ہیں۔ مگر افسوسناک امر یہ ہے کہ بیشتر مقامات پر بغیر رشوت دیے کسی عام شہری کی بات سننا تو دور، ایس ایچ او یا تفتیشی افسر سے ملاقات بھی ممکن نہیں ہوتی۔
رشوت لینا اب ایک معمول بن چکا ہے اور متعدد شہریوں نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ ہر بار تھانے جانے کا مطلب نئی “فیس” کا مطالبہ ہوتا ہے — چاہے وہ ایک ایف آئی آر کے اندراج کا معاملہ ہو یا کسی تفتیشی افسر سے پیش رفت جاننے کی کوشش۔

کھلی کچہریاں: حقیقت یا نمائشی ڈرامہ؟

اعلیٰ افسران کی جانب سے عوامی ریلیف کے لیے منعقد کی جانے والی کھلی کچہریاں بھی زیادہ تر نمائشی پروگرام بن چکی ہیں۔
کھلی کچہریوں کی نہ تو مناسب تشہیر کی جاتی ہے اور نہ ہی عام شہریوں کو ان کی معلومات دی جاتی ہیں۔ اکثر اوقات ان میں شرکت کرنے والے “شکایت کنندہ” وہی افراد ہوتے ہیں جنہیں متعلقہ تھانوں کے ایس ایچ اوز یا تفتیشی افسران خود نامزد کر کے بھیجتے ہیں تاکہ ان پر کوئی سخت سوال نہ اٹھ سکے۔

ایک اعلیٰ پولیس اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ:

“کھلی کچہریوں سے پہلے متعلقہ تھانوں کے افسران اپنی ٹیم کے افراد کو بطور شکایت کنندہ تیار کر کے بھیج دیتے ہیں، تاکہ اصل شکایات منظرعام پر نہ آ سکیں اور رپورٹنگ میں دکھایا جا سکے کہ پولیس نے ‘عوامی مسائل’ حل کر دیے۔”

عدالتی اور انتظامی خاموشی

یہ سارا نظام صرف پولیس تک محدود نہیں۔ اگر شہری کوئی درخواست لے کر عدالت یا متعلقہ ضلعی افسر کے دفتر میں بھی جائے، تو وہاں بھی وقت کا ضیاع، تاریخوں پر تاریخیں، اور بعض اوقات وہی “غیر اعلانیہ فیس” کی توقع کی جاتی ہے۔

مزید پڑھیں: اے این ایف کی بڑی کارروائی: طورخم بارڈر پر شہد کے ٹرک سے 22 کلوگرام منشیات برآمد، افغان اسمگلر گرفتار

حل کیا ہے؟

اگر واقعی وفاقی پولیس شہریوں کو سہولت فراہم کرنے میں سنجیدہ ہے تو ضروری ہے کہ:

  1. کھلی کچہریوں کی باقاعدہ، موثر اور وسیع تشہیر کی جائے تاکہ ہر شہری کو ان تک رسائی حاصل ہو۔

  2. سوشل میڈیا، اخبارات اور مساجد کے ذریعے عوامی آگاہی مہم چلائی جائے۔

  3. کھلی کچہریوں میں عام شہریوں کو آزادانہ شکایت درج کرانے کا موقع دیا جائے اور اس کی ویڈیو ریکارڈنگ بھی عوامی سطح پر جاری کی جائے۔

  4. رشوت ستانی میں ملوث افسران کے خلاف فوری کارروائی عمل میں لائی جائے اور نتائج میڈیا میں شیئر کیے جائیں۔

  5. پولیس اسٹیشنوں میں سی سی ٹی وی کیمرے اور شہری فیڈبیک رجسٹرز لازمی قرار دیے جائیں۔

اسلام آباد، جو ایک ماڈل سٹی کی شناخت رکھتا ہے، وہاں کے باسی جب انصاف کے حصول کے لیے خوار ہو رہے ہوں، تو دیگر شہروں میں عوام کی حالت کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔

اگر وقت پر مؤثر اقدامات نہ کیے گئے تو “دہلیز پر انصاف” کا نعرہ عوام کی نظروں میں اپنی ساکھ کھو دے گا اور یہ صرف ایک سرکاری نعرہ بن کر رہ جائے گا۔

مزید خبریں