تحریر: ندیم طاہر
انجینئر محمد علی مرزا ایک متنازعہ شخصیت ہیں جن کے بیانات اکثر مذہبی اور فکری حلقوں میں بحث و تنقید کا باعث بنتے ہیں۔ ان کی گفتگو کا انداز براہِ راست، سخت اور بعض اوقات غیر محتاط ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ کئی مواقع پر ایسے الفاظ استعمال کر بیٹھتے ہیں جو نہ صرف عام مسلمانوں کے لیے تکلیف دہ ہوتے ہیں بلکہ دینِ اسلام کی روح اور ادبِ مصطفیٰ ﷺ کے خلاف بھی سمجھے جاتے ہیں۔ حال ہی میں ان کا ایک انٹرویو مسیحی کمیونٹی کے حوالے سے سامنے آیا جس میں انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں کچھ ایسے الفاظ استعمال کیے جو کسی بھی مسلمان کے لیے ناقابلِ برداشت ہیں۔
نبی کریم ﷺ سے محبت اور ادب ایمان کا بنیادی حصہ ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کی اطاعت اور تعظیم کو لازم قرار دیا ہے، اور حدیث شریف میں بھی یہ تعلیم دی گئی ہے کہ مؤمن اپنی جان، مال اور ہر چیز سے بڑھ کر نبی کریم ﷺ کو محبوب رکھے۔ ایسے میں اگر کوئی شخص آپ ﷺ کے بارے میں غیر محتاط الفاظ استعمال کرتا ہے تو وہ سیدھا سیدھا ایمان والوں کے دلوں پر چوٹ کرتا ہے۔ انجینئر مرزا کے الفاظ سن کر اہلِ ایمان کے دل غم سے چور اور آنکھیں اشکبار ہو گئیں، کیونکہ یہ وہ ہستی ہیں جن کے ذکر سے دلوں کو سکون ملتا ہے اور جن کی ذات رحمت للعالمین ہے۔
یہ حقیقت بھی پیشِ نظر رہنی چاہیے کہ دنیا کے بڑے سے بڑا سیاسی یا سماجی رہنما بھی اپنے ماننے والوں کے نزدیک ایک حد تک ہی محترم ہوتا ہے، مگر نبی اکرم ﷺ کی شان اس سے کہیں بلند اور عظیم ہے۔
آپ کسی بھی ن لیگ کے ووٹر سے یہ بات نہیں سنیں گے کہ مخالفین ہمارے لیڈر کے سارے ٹبر کو چور کہتے ہیں کسی پیپلز پارٹی کے جیالے سے نہیں سنیں گے کہ لوگ ہمارے لیڈر کو مسٹر ٹین پرسنٹ کہتے ہیں کسی پی ٹی آئی کے کارکن سے نہیں سنیں گے کہ ہمارے مخالف ہمارے لیڈر کو گھڑی چور کہتے ہیں ۔ کیوں ؟ کیونکہ ان کے لیڈر کی محبت ا س بات کا تقاضہ کرتی ہے کہ وہ اپنے لیڈر کے بارے میں وہ بات اشارتا بھی نہ کہیں جو ان کے مخالفین کہتے ہیں ۔
تو یہ کون سا علمی تکبر اور مغروری ہے جو انسان کو مثال دیتے ہوئے بھی اپنے مذہبی پیشوا کے بارے میں کسی غیر مسلم کے تخیل کو پوری تفصیل سے بتانے کی جرات کرے
کوئی عام سیاسی کارکن یا دنیا دار اپنے لیڈر کے لیے بھی ایسے الفاظ استعمال نہیں کرتا جو انجینئر مرزا نے تاجدارِ دو جہاں ﷺ کے لیے استعمال کیے۔ اس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ محض ایک فکری غلطی یا زبان کا پھسلنا نہیں بلکہ ایک انتہائی غیر ذمہ دارانہ رویہ تھا جس نے امتِ مسلمہ کے جذبات کو مجروح کیا۔
یہاں یہ بھی سمجھنا ضروری ہے کہ اختلافِ رائے یا علمی بحث و مباحثہ اپنی جگہ، لیکن ادب و احترام ہر حال میں مقدم ہے۔ ہمارے اسلاف نے جب کبھی کسی علمی مسئلے پر بات کی تو پہلے نبی اکرم ﷺ کی شانِ اقدس میں درود و سلام پیش کرتے اور پھر نہایت محتاط الفاظ میں اپنی بات کہتے۔ یہ طریقہ نہ صرف علمی دیانت کا تقاضا ہے بلکہ ایمان کا بھی حصہ ہے۔ اگر کوئی شخص علم یا تحقیق کے نام پر گستاخانہ جملے کہہ دے تو اس کے تمام علمی دلائل بے وقعت ہو جاتے ہیں، کیونکہ وہ ادبِ نبوی ﷺ سے خالی ہیں۔
آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ایسی شخصیات کے بیانات کو بلا تحقیق قبول نہ کیا جائے اور نہ ہی ان کے اثر میں آ کر دلوں میں حضور ﷺ کی محبت کم ہونے دی جائے۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ حضور ﷺ کی عزت و ناموس کی حفاظت کے لیے یکجا ہوں اور ایسے الفاظ کی کھل کر مذمت کریں۔ ساتھ ہی یہ بھی لازم ہے کہ نوجوان نسل کو ادبِ نبوی ﷺ کی تعلیم دی جائے تاکہ وہ کسی بھی سطح پر ایسے خیالات سے متاثر نہ ہو سکیں۔
آخر میں یہ بات ذہن نشین رہے کہ حضور نبی کریم ﷺ کی عظمت کو دنیا کا کوئی شخص گھٹا نہیں سکتا۔ آپ ﷺ کی شان وہ ہے جسے اللہ نے بلند فرما دیا ہے، اور قیامت تک آپ ﷺ کا ذکر خیر بلند ہوتا رہے گا۔ البتہ امت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے نبی ﷺ کی عزت کی حفاظت کرے اور کسی بھی قسم کی گستاخی پر خاموش نہ بیٹھے۔ یہی ایمان کی علامت ہے اور یہی محبتِ رسول ﷺ کا تقاضا ہے۔