تحریر: ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی
پاکستان کی ریاستی تاریخ میں شہری اعزازات کی تقسیم کا نظام نہ صرف قومی خدمات کے اعتراف کا ذریعہ رہا ہے بلکہ اس نے ریاستی ڈھانچے کی سمت اور حکمران اشرافیہ کے رویوں کو بھی بے نقاب کیا ہے۔ ۲۳ مارچ ۱۹۵۸ء کو پاکستان گزٹ میں شائع ہونے والے ایک غیر معمولی نوٹیفکیشن نے ملک کی تاریخ میں ایک ایسا باب رقم کیا جس پر بعد میں کئی سوالات اٹھائے گئے۔ اس نوٹیفکیشن کے مطابق اُس وقت کے صدرِ پاکستان میجر جنرل اسکندر مرزا نے اپنے لیے سب سے بڑا شہری اعزاز نشانِ پاکستان منظور کیا اور اپنی اہلیہ بیگم ناہید اسکندر مرزا کے لیے نشانِ امتیاز منظور کرواکر سبقت لے گئے۔
پاکستان میں شہری اعزازات کا باضابطہ آغاز قیامِ پاکستان کے بعد عمل میں آیا۔ برطانوی دور میں بھی اعزازات اور خطابات کا ایک سلسلہ موجود تھا لیکن آزادی کے بعد پاکستان نے اپنی قومی شناخت کے مطابق نئے اعزازات کا نظام وضع کیا۔ ۱۹۵۷ء میں نشانِ پاکستان قائم کیا گیا جسے “ملک کا سب سے بڑا شہری اعزاز” قرار دیا گیا۔ لیکن محض ایک برس بعد جب یہ اعزاز پہلی مرتبہ دیا گیا تو صدرِ مملکت نے اسے اپنی ہی ذات کے لیے مخصوص کر لیا اور اپنا نام تاریخ میں لکھواکر چلے گئے۔
اسی گزٹ کے مطابق نشانِ پاکستان خواجہ ناظم الدین کو بھی عطا کیا گیا، جبکہ نشانِ قائداعظم وزیرِاعظم ملک فیروز خان نون اور چیف جسٹس محمد منیر کو ملا۔ بیگم ناہید اسکندر مرزا، بیگم وقارالنساء نون اور بیگم رعنا لیاقت علی خان کو نشانِ امتیاز دیا گیا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ آغاز ہی سے اعزازات کا نظام شخصیات اور اشرافیہ تک ہی محدود رہا۔ جب سب سے بڑے قومی اعزاز کی پہلی مثال ہی خود ستائی اور اقربا پروری سے دی گئی تو اس نے مستقبل میں اس پورے نظام کو مشکوک بنا دیا۔
ایوارڈ دیتے وقت ریاستی وقار کو پس پشت ڈال کر ذاتی عظمت کو ترجیع دی گئی۔ اعزازات کا مقصد ان افراد کی خدمات کا اعتراف ہونا چاہیے جو قومی یا بین الاقوامی سطح پر غیر معمولی کردار ادا کریں۔ لیکن یہاں پہلا اعزاز صدر پاکستان نے خود اپنے لیے منتخب کیا۔ اس عمل نے اعزاز کی ساکھ کو کمزور بنادیا اور یہ تاثر ابھرا کہ یہ اعزاز “ریاستی وقار” کے بجائے “ذاتی عظمت” کے اظہار کے لیے استعمال ہو رہا ہے۔
سیاسی اور عدالتی وابستگیوں پر دیا جانے والا انعام بھی تنقید کا نشانہ بنا۔
چیف جسٹس محمد منیر، جنہوں نے “نظریہ ضرورت” کے تحت فوجی و صدارتی اقدامات کو جواز فراہم کیا، کو نشانِ قائداعظم دینا اس بات کی علامت ہے کہ اعزازات کا نظام سیاسی مقاصد کے تحت استعمال ہوا۔
بیگم رعنا لیاقت علی خان کی خدمات واقعی قابلِ اعتراف تھیں، لیکن بیگم ناہید اسکندر مرزا کو اعزاز دینا اقربا پروری کی ایک اور بدترین مثال تھی۔ اس نے اس نظام کی شفافیت پر مزید سوال اٹھائے۔
پاکستان میں شہری اعزازات کے نظام پر تنقید ہمیشہ رہی ہے۔ اکثر کہا گیا کہ یہ اعزازات چند مخصوص خاندانوں، طاقتور سیاست دانوں یا حکومتی حامی طبقات تک محدود رہتے ہیں۔ جبکہ اصل میں یہ اعزاز اُن گمنام ہیروز کے لیے ہونا چاہیے جو ملک و قوم کے لیے قربانیاں دیتے ہیں۔
۱۹۷۵ء کے ڈیکوریشن ایکٹ کے بعد اعزازات کا ایک واضح اور باقاعدہ نظام بنایا گیا اور بعد میں یہ اعزاز زیادہ تر قومی خدمات اور عالمی سطح پر پاکستان کے وقار کے لیے دیے جانے لگے۔ لیکن ابتدا میں دی گئی مثال نے اس نظام پر ہمیشہ ایک دھبہ چھوڑ دیا ہے جو اب تک موجود ہے
پاکستان کے سب سے بڑے شہری اعزاز “نشانِ پاکستان” کی پہلی تقریب نے ریاستی اشرافیہ کے مزاج کو واضح کیا کہ یہ اعزاز “قومی خدمت” کے بجائے “سیاسی اور ذاتی وقار” کے لیے استعمال ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ بعد کے ادوار میں جب بھی اعزازات تقسیم ہوئے ان پر شفافیت کے سوالات اٹھتے رہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ اعزازات کو سیاسی و ذاتی مصلحتوں سے بالاتر کر کے صرف اُن شخصیات کو دیا جائے جنہوں نے واقعی ملک، قوم اور انسانیت کے لیے غیر معمولی خدمات انجام دی ہوں۔ تبھی یہ اعزازات اپنی اصل معنویت اور وقار حاصل کر سکیں گے۔