اتوار,  17  اگست 2025ء
جشن آزادی اور قربانیاں

دو حرف/ رشید ملک

شاہراہ قائد وفاقی دارالحکومت کی سب سے مصروف کاروباری و تجارتی شاہراہ سمجھی جاتی ہے اور اسے بانی پاکستان بابا قوم حضرت قائد اعظم محمد علی جناح رحمتہ اللہ سے منسوب کیا گیا ہے۔ ایک طرح سے بابا قوم کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے اس شاہراہ کا نام ان کے نام پر رکھا گیا۔ 14 اگست 2025 اس لحاظ سے منفرد اور زیادہ مسرور کن تھا کہ بھارت کی حالیہ جاریت میں پاک فضائیہ نے بھارت کے انتہائی جدید طیارے رافیل کو ریزہ ریزہ کیا اور پوری دنیا پر یہ بات ثابت کر دی کہ ملک پاکستان ایک پیشہ ور اور مہارت یافتہ محافظوں کے سپرد ہے،جس کے ساتھ اس کی عوام بھرپور طریقے سے کندھے سے کندھا ملا کر کھڑی ہوئی ہے یہ فوج اور یہ قوم ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں،کوئی بھی کسی بھی وقت کسی بھی وجہ سے کبھی بھی ایک دوسرے کو کسی بھی امتحان میں تنہا نہیں چھوڑیں گے پاکستان کے دفاع کے لیے بھارت کی حالیہ جارحیت کے جواب میں پاک فضائیہ نے جے ایف تھنڈر جیسے جدید ترین طیارے کو مقابلے کے لیے منتخب کیا اور نتیجہ پوری دنیا نے جاگتی آنکھوں کے ساتھ دیکھا بس اس پر اور زیادہ کیا لکھوں کہ مودی کا گھمنڈ،غرور اور تکبر تمام تر شوخیوں کے ساتھ دھول برد ہو گیا،اس کی انا پرستی خاک میں مل کر خاک ہو گئی اور پوری دنیا میں مودی منہ دکھانے کے قابل نہ رہا ہندوستان کے اندر مودی نے ایک سیکولر ریاست کے تاثر کو جس طرح سے اپنے تکبر اور حوص اقتدار کی ضد میں روند ڈالا اس کی مثال دنیا میں کہیں نہیں ملتی مودی نے جہاں گھمنڈ اور غرور کے ساتھ بھارت کے تشخص اور اس کے سیکولر ازم کو خاک میں ملایا اسی شدت پسندی کے ساتھ کٹر ہندو ازم کو انتہا پسندی کی آخری اوج پر پہنچایا۔ ہندو انتہا پسندی کے نتیجے میں بھارت میں اقلیتوں پر شب و ستم جبر و استبداد اور بربریت کی ایک نئی تاریخ رقم کی گئی۔ مسلمان جو ہندوستان میں رہ رہا ہے ہندو انتہا پسندی کا اولین شکار بنا اس کے بعد سکھ عیسائی اور نیچی ذات کے اچھوت شودر ملیچھ بھی محفوظ نہ رہ سکے سنگھاسن پر ہندوستان کے اندر قیام پاکستان سے پہلے ہی شدید حملے کیے گئے مودی سرکار نے گجرات میں اپنے وزیراعلی کے دور میں جو قتل و غارت گری کی تاریخ رقم کی آج تک انسانیت اس پر شرمندہ ہے چوک و چوراہوں میں مسلمانوں اور دوسری اقلیت سے تعلق رکھنے والے باشندوں کو سرعام تشدد کا نشانہ بنایا جانا اور پھر خواتین کو بازار میں برہنہ کر کے اپنی ہوس کا نشانہ بنانا اس ہندو انتہا پسندی کی گھناونی تاریخ بنی، یہ پس منظر بیان کرنا اس لیے ضروری ہے کہ نریندر مودی جس کے متعلق ہندوستان کی تاریخ میں ہے کہ چائے بیچنے والا ایک لاوارث بچہ جسے خود اس کا ہندو ازم کا نفرت انگیز رویہ پرورش کرتا رہا اور پھر یہ سیاست میں آکر ہندو معاشرے کی اس نفرت کا بدلہ لینے پر تل گیا۔میں سمجھتا ہوں کہ نریندر مودی ایک بزدل اور عقل و شعور سے عاری شخص ہے جس کے عہد حکومت کی سیاہی تاریخ کے چہرے سے کبھی نہیں دھوئی جا سکے گی ہندو ستم ظریفی کا شکار یہ نریندر سیاست کی بھول بھلیوں میں یہ تو سمجھ گیا کہ جس معاشرے پر حکومت کرنی ہے اس کی جنتا پر اپنے بدلے کی آگ کو ہوا دینا اس کے لیے سود مند نہیں البتہ وہ اپنی اس خلش کو مٹانے کے لیے مسلمان عیسائی سکھ اور دوسری اقلیتوں پر جذبہ چنگیز خان کو پیچھے چھوڑتے ہوئے حملہ آور ہو گیا۔بیڑا اور چرس گانجا پینے والا ہر بے کار ہندو نوجوان نریندر مودی کی شہہ پر ہندوستان کے کونے کونے میں اقلیتوں پر بے رحم قصائیوں کی طرح پل پڑا ،جس پر مودی بہت زیادہ شاداں و خوش اور اندر ہی اندر ان ہندو نوجوانوں کو داد تحسین دیتا رہا،پھر ایک ایسی غلط فہمی کا شکار ہو گیا جس کے زیر اثر اسے پوری دنیا میں ہزیمت اٹھانا پڑی اور پاکستان کے ہاتھوں ذلت اور رسوائی اس کا مقدر بنے مودی نے پاکستان کے متعلق غلط اندازے لگاتے ہوئے پاکستانی کی سرحدوں کی خلاف ورزی کر کے اپنے فضائی برتری کے گھمنڈ کو تقویت دینے کی ایک بچگانہ کوشش کی، جاگتی اور چوکس پاکستانی فضائیہ نے اس کوشش کو نہ صرف ناکام بنایا بلکہ پوری دنیا میں عبرت کا نشان بنا دیا۔مودی کے حکم پر بھارت کی ایئر فورس نے فرانس سے درآمد کیے ہوئے جدید رافیل طیاروں کے ذریعے پاکستان پر فضائی حملہ کیا ،مگر اسے یہ معلوم نہیں تھا کہ پاکستان 1947 کی تقسیم کے بعد 70 سے زیادہ عشرے گزارنے کے بعد پورے عالم اسلام میں ایک مضبوط قلعہ کا روپ اختیار کر چکا ہے پاکستان کی یہ حیثیت پوری دنیا میں اسے قدر و منزلت سے با وقار کیے۔ ہوئے ہے پاکستان اسلامی دنیا کا وہ پہلا ملک ہے جسے دنیا ایٹمی طاقت کے طور پر جانتی ہے یہ 14 اگست خاص طور پر ایک منفرد اور دل پذیر الگ خوشیوں کے ساتھ پاکستانی قوم کے مقدر میں لکھا گیا عوام کا جوش و جذبہ پورے ملک میں انتہائی دیدنی تھا مان چلے نوجوان پاکستان زندہ باد کے ساتھ ساتھ پاک فوج کے لیے بھی دعا گو تھے ،البتہ میں اس پہلو پر بھی بات کرنا چاہوں گا کہ ہر سال کی طرح اس سال بھی 14 اگست کی تقریبات کا جشن مناتے ہوئے اکثر من چلے کچھ خرافات کا شکار بھی نظر ائے کانوں میں بتی اواز محسوس کرانے والے بے ہنگم سروں سے مزین پلاسٹک کا وہ بڑا باجا بے دردی سے بجاتے ہوئے موٹر سائیکل کا سائنسر اتارے ہوئے یہ جا وہ جا دکھائی دے رہے تھے بات یہاں تک ہوتی تو شاید یہ سطور لکھنے سے گریز کرتا مگر ان شرمسار نظروں نے بہت سارے مناظر ایسے بھی دیکھے کہ جنہیں بیان کرنا زبان کو زحمت دینے کے مترادف ہے میں انتہائی دکھ کے ساتھ ایک ہلکی سی جھلک پھر بھی بیان کروں گا تاکہ میرے ملک کا نوجوان شائد ان سطور سے کچھ سبق حاصل کر سکے، اور تاریخ سے واقفیت اور آشنائی پا سکے یقینا 14 اگست اس قوم کے لیے نوجوانوں کے لیے خواتین اور میرے بزرگوں کے لیے کسی عید سے کم نہیں مگر یہ 14 اگست کا دن ہم نے اپنی زندگی کا حصہ کیسے بنایا اس کی داستان بہت بھیانک اور دل دوز ہے۔ پاکستان ایک علیحدہ وطن کے حصول کی تحریک برصغیر پاک و ہند میں شروع ہوئی تو اس کے محرکات یہ تھے کہ ہندوستان کے ہندو مسلمانوں کے لیے اس سرزمین کو تنگ سے تنگ کر رہے تھے جس پر مسلمانوں کے دانشوروں سیاست دانوں مزدوروں کسانوں اور ہر طبقہ زندگی کے افراد نے ایک تہیہ کیا کہ بہت ہو گیا اب ہم ایک ایسا خطہ الگ بسائیں گے جس پر ہمیں ہماری تمام مذہبی اور شخصی آزادیاں میسر ہوں گی اور پھر ایک طویل جدوجہد کے بعد آزاد وطن پاکستان کے نام سے اقوام عالم کے نقشے پر وجود پا گیا۔درج بالاچند سطور کی طرح یہ اسی طرح کوئی بہت سادہ بات نہیں ،ہندو انتہا پسندوں کو مسلمانوں کے الگ وطن کی حقیقت ایک لمحہ بھی نہ بھائی اور مکار ہندو بنیے اور انتہا پسند ہندو ازم کے بے قابو نفرت سے لبریز تصور کو حقیقت میں بدل لیں کہ یہ ایک گھنانی سازش تیار کی گئی۔ پھر کیا تھا کہ چشم فلک نے وہ بھیانک خونریزی کی ہولناکی کے ایسے ایسے مناظر دیکھے اللہ پناہ میں ان واقعات کو اس لیے بھی لکھ رہا ہوں کہ خود میرے دادا بھی اس جنگ ازادی میں اپنی جان مالک حقیقی کے سپرد کرتے ہوئے جام شہادت نوش کر گئے۔ ہندوؤں نے تقسیم پاکستان کے اعلان کے بعد لارڈ ماؤنٹ بیٹن کی تمام تر بددیانتی کے باوجود معرض وجود میں انے والے پاکستان میں سکونت کے لیے دنیا عالم کی سب سے بڑی ہجرت شروع کی تو ہندو انتہا پسندی کے تحت کی گئی سازش کے زیر اثر مہاجرین کا قتل عام شروع کر دیا گیا،اگرچہ اس سازش میں چالاک ہندو نے سکھوں کو اپنا اعلی کار بنا کر استعمال کیا، پاکستان کی طرف مہاجرین کو لانے والی ٹرینیں خون میں نہلا دی گئی بیل گاڑیوں پر اور پیدل آنے والے قافلوں کو جہاں موقع ملا روک کر قتل عام کیا گیا نوجوان خواتین کو زبردستی چھین کر ان کے ساتھ وہ سلوک کیا گیا کہ اللہ کسی بھائی کو کسی باپ کو کسی شوہر کو کسی بیٹے کو یہ مناظر دیکھنا نصیب نہ کرے۔میں وہ مناظر لکھنا چاہتا ہوں مگر خدا گواہ ہے کہ میری آنکھوں سے آنسو رواں اور میرا قلم میرے ضمیر کو جنجھوڑ جنجھوڑ کر مجھے واسطے دے رہا ہے کہ اللہ کے لیے ایسا نہ کریں وہ بھیانک مناظر آپ اپنے کالم میں کسی حوالے کے لیے بھی قطہ تحریر کا حصہ نہ بنا ئیں اللہ گواہ ہے کہ میری وہ تمام سکت ،طاقت، قوت ہمت حوصلہ جرات بہادری دلیری بے باکی دم توڑ چکی ہے۔ میں اپنے نوجوانوں سے صرف یہ گزارش کرنا چاہتا ہے جم جم جوانیاں مانو اور 14 اگست کے جشن کو ہر سال بے مثال جذبے کے ساتھ مناؤ مگر سکوٹر کا سلنسر اتار کر بے سرے باجے کے اندر پھیپھڑوں کی پوری طاقت سے ہوا دے کر ماؤں بہنوں اور بیٹیوں کو اپنی آباشیوں کا شکار بنانا کوئی کسی ازادی کا جشن نہیں ہے۔ تاریخ سے آگاہی حاصل کریں اور ان ماؤں بہنوں کی قربانیوں کو بیٹیوں کی قرانیوں کو اپنے بزرگوں کی قربانیوں کو تھوڑا جاننے کی کوشش کریں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ یہ آزاد وطن پاکستان ایسے پلیٹ میں رکھ کر پیش نہیں کیا گیا۔ سلام ہے قائد اعظم کو جس نے انگریز گورنر لارڈ ماؤنٹ بیٹن سمیت ریڈ کلف اور تمام دوسری برطانوی بیوروکریسی اور ہندوستانی چاپلوس چمچہ گیروں کی کسی بھی سازش کو اپنے اوپر کار کرنا ہونے دیا 15 اگست کو ہندوستان کی تقسیم کا اعلان کیا گیا تو قائد اعظم محمد علی جناح نے 14 اگست کو یوم ازادی قرار دیا،یقینا یہ اس کی دانش بندی تھی اس کی فراست تھی کہ وہ آزاد وطن کی جدوجہد میں انگریز اور ہندو کے ذہن کو جتنا قریب رہ کر پڑھ چکا تھا اس کے پیش نظر ایک لمحہ بھی آزادی کو موخر کرنے کے حق میں نہیں تھا انگریز اور ہندو نے ناگزیر آزادی کے عظیم فیصلے کو روکنے کے لیے قائد اعظم کو متحدہ ہندوستان کا پہلا وزیراعظم بننے کی پیشکش کی جسے انہوں نے مسترد کر دیا،اس کے بعد انگریز گورنر نے پاکستان کا پہلا گورنر جنرل بننے کی خواہش کا اظہار کیا لیکن خوددار اور باوقار شخصیت کے مالک قائد اعظم محمد علی جناح نے اس خواہش کو بھی اپنے جوتے کی ایڑی کے نیچے جلے ہوئے سرکار کی طرح مسل کے رکھ دیا اور اور خود پاکستان کے پہلے گورنر بن کر پاکستان کی آزادی کا اعلان اپنی زبان سے خود کیا ازادی کا پہلا بیان جب ریڈیو پاکستان سے ان کی اپنی زبان میں جاری ہوا تو لوگ خوش تھے مگر ہندو انتہا پسندی سے گھائل رنجیدہ دلوں کے ہاتھوں مجبور ان کی آنکھوں سے زار و قطار آنسو روا رواں تھے انہیں بلا شبہ لوٹی ہوئی ماں بہن اور بیٹی کی یادیں آوازیں دے رہی ہیں اور ان ماؤں بہنوں بیٹیوں کی لٹتی ہوئی عصمتوں کے مناظر انہیں پوری طرح خوش نہیں ہونے دے رہے تھے میری قوم کے نوجوان اس خون آلود تاریخ سے بھی واقفیت کے ساتھ حاصل کر جشن ازادی کے کئی گھنٹوں میں سے صرف ایک گھنٹہ 50 منٹ نکال کر سعادت حسن منٹو سمیت ان تمام لکھنے والوں کی تصانیف سے استفادہ کریں جس میں اس عظیم وطن کی آزادی کی منظر کشی کی گئی ہے۔اللہ آپ کو عزت و سلامتی سے سرشار رکھے اور تاریخ سے آشنائی کی توفیق عطا فرمائے پاکستان زندہ باد جشن آزادی اور قربانیاں ساتھ ساتھ لے کر چلیں تاکہ وطن عزیز کا دفاع اور مزید مضبوط و مستحکم ہو سکے اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو امین.

مزید خبریں