ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی
پاکستان میں وراثتی جائیداد کے معاملات ہمیشہ سے ایک پیچیدہ اور طویل قانونی عمل کے طور پر جانے جاتے رہے ہیں۔ عدالتوں کے چکر، وکلاء کی فیسیں، دستاویزات کی تصدیق اور متعلقہ صوبے میں درخواست جمع کرانے کی لازمی شرط، یہ سب عوام کے لیے مشکلات کا باعث بنتے رہے۔ خاص طور پر وہ ورثاء جو وراثتی جائیداد کے صوبے سے باہر مقیم ہوں، ان کے لیے سفر اور قانونی کارروائی کا بوجھ کئی گنا بڑھ جاتا تھا۔
پاکستان میں جانشینی سرٹیفکیٹ کا اجراء 1939ء کے جانشینی ایکٹ اور بعد ازاں قانونِ وراثت کے تحت عدالتوں کے ذریعے ہوتا رہا۔ نادرا (نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی) نے گزشتہ چند برسوں میں اس عمل کو عدالتوں سے ہٹا کر ایک تیز، شفاف اور ٹیکنالوجی پر مبنی نظام میں بدلنے کے لیے اقدامات کیے ہیں۔ 2021ء میں نادرا نے جانشینی سہولت مراکز متعارف کرائے، جہاں قانونی ورثاء کی بائیومیٹرک تصدیق کے بعد سرٹیفکیٹ جاری ہونے لگا۔ تاہم اس وقت تک صوبائی حدود کی پابندی برقرار تھی، یعنی درخواست صرف اسی صوبے میں دی جا سکتی تھی جہاں جائیداد واقع ہو۔
اب نادرا نے ایک اہم اور عوام دوست قدم اٹھاتے ہوئے یہ شرط ختم کر دی ہے۔ نئے نوٹیفکیشن کے مطابق، وراثتی جائیداد چاہے کسی بھی صوبے یا خطے میں ہو، قانونی ورثاء ملک بھر کے 186 جانشینی سہولت مراکز یا سکسیشن فیسلیٹیشن یونٹس میں درخواست جمع کرا سکتے ہیں۔ اس سے نہ صرف وقت اور اخراجات کی بچت ہوگی بلکہ دیہی اور دور دراز علاقوں میں بسنے والے شہری بھی قریب ترین مرکز سے مستفید ہو سکیں گے۔
مزید سہولت یہ دی گئی ہے کہ بائیومیٹرک تصدیق کے لیے ورثاء نادرا کی پاک آئی ڈی موبائل ایپ استعمال کر سکتے ہیں، جو پہلے صرف ایک محدود فیچر کے طور پر دستیاب تھی۔ اب یہ سہولت اس نئے نظام کے ساتھ مکمل طور پر مربوط ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بیرونِ ملک مقیم ورثاء بھی ایپ کے ذریعے تصدیق کروا کر عمل کو تیز کر سکتے ہیں۔
یہ اقدام نہ صرف نادرا کے ڈیجیٹل گورننس کے وژن کی عکاسی کرتا ہے بلکہ پاکستان میں ای گورنمنٹ کے فروغ کی ایک اہم کڑی بھی ہے۔ اگر اس نظام پر شفافیت اور سائبر سیکیورٹی کے پہلوؤں سے مؤثر عمل درآمد جاری رہا، تو یہ ملکی قانونی ڈھانچے میں ایک انقلابی تبدیلی ثابت ہو سکتا ہے۔
یہ سہولت وراثتی معاملات میں ایک تاریخی پیش رفت ہے، لیکن اس کے ساتھ عوامی آگاہی مہم چلانا بھی ضروری ہے تاکہ دور دراز کے علاقوں میں رہنے والے لوگ اس سے فوری فائدہ اٹھا سکیں۔ ساتھ ہی، نظام میں ڈیٹا پروٹیکشن اور جعلسازی کے خلاف سخت حفاظتی اقدامات بھی کرنے ہونگے تاکہ یہ اصلاحی قدم اپنی افادیت برقرار رکھ سکے۔
*ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی کا تعلق خیبرپختونخوا چترال سے ہے آپ حالات حاضرہ، علم ادب، لسانیات اور تحقیق و تنقیدی موضوعات پر لکھتے ہیں ان سے اس ای میل rachitrali@gmail.com اور واٹس ایپ نمبر 03365114595 پر رابطہ کیا جاسکتا ہے