تحریر: ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی
اسلام آباد میں مدنی مسجد کی مسماری اور اس کے بعد رابطۃ المدارس الاسلامیہ پاکستان کا 10 اگست 2025ء کا پریس ریلیز نہ صرف ایک مذہبی ادارے کے ردعمل کی نمائندگی کرتا ہے بلکہ ریاستی اقدامات، قانون کے اطلاق اور طاقت و کمزوری کے غیر متوازن معیار کے سوالات کو بھی اجاگر کرتا ہے۔
مدنی مسجد ضیاء الحق کے دور سے قائم ایک قدیم دینی مرکز تھا جو نہ صرف نماز کی ادائیگی کے لیے استعمال ہوتی تھی بلکہ ایک مدرسہ کے طور پر ہزاروں طلبہ کی دینی و اخلاقی تربیت کا مرکز بھی تھی۔ پاکستان میں مساجد کا سماجی کردار محض عبادت تک محدود نہیں بلکہ یہ تعلیمی، رفاہی اور سماجی ہم آہنگی کے مراکز کے طور پر بھی جانے جاتے ہیں۔ آئینِ پاکستان کا آرٹیکل 20 مذہبی آزادی اور عبادت گاہ قائم کرنے کے حق کی ضمانت دیتا ہے۔ تاہم گزشتہ دو دہائیوں میں “غیر قانونی تعمیرات” کے عنوان سے متعدد مساجد کو ہٹایا گیا، جس میں لال مسجد کے بعد کئی چھوٹی مساجد بھی شامل رہیں۔
رابطۃ المدارس کے قائدین نے مسجد کی مسماری کو ’’اللہ کے گھر کے ساتھ اعلانِ جنگ‘‘ قرار دیا ہے اور کہا کہ یہ عمل آئینی و قانونی جرم، شرعی کبیرہ گناہ اور امت مسلمہ کے جذبات کو مجروح کرنے کا باعث ہے۔ پریس ریلیز میں تین اہم مطالبات سامنے رکھے گئے ہیں:
مسجد و مدرسے کی فوری طور پر اسی مقام پر دوبارہ تعمیر کی جائے
اصل ذمہ داران کی نشاندہی اور عبرتناک سزا دی جائے
قومی سطح پر اجتماعی توبہ و استغفار تاکہ آئندہ اس نوعیت کا واقعہ نہ ہو۔
یہ مطالبات ایک مذہبی و عوامی ردعمل کا اظہار ہیں، مگر ان کے ساتھ ساتھ یہ ریاستی پالیسی اور انتظامی فیصلوں پر براہِ راست سوال بھی کھڑا کرتے ہیں۔
آصف محمود نے اپنے کالم میں ایک اہم نقطہ اٹھایا کہ اگر مدنی مسجد کو گرین بیلٹ یا نیشنل پارک کی حدود میں ہونے کے باعث گرایا گیا تو پھر اسلام آباد کلب، گنز اینڈ کنٹری کلب، مارگلہ نیشنل پارک میں قائم ہوٹل، ٹی کے آر ریسٹورنٹ، شکر پڑیاں کے دفاتر، اور دیگر تعمیرات کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کی جاتی؟
یہ سوال ریاستی عملداری میں دوہرا معیار اور قانون کے غیر مساوی اطلاق کی نشاندہی کرتا ہے۔ اگر قانون سب کے لیے یکساں ہے تو طاقتور اور کمزور میں فرق کیوں؟ یہ نکتہ اس تاثر کو تقویت دیتا ہے کہ بعض قوانین صرف کمزور طبقوں پر نافذ ہوتے ہیں، جبکہ اثر و رسوخ رکھنے والے ادارے یا افراد اس سے محفوظ رہتے ہیں۔
اس معاملے کا ایک پہلو مذہبی جذبات اور آئینی حقوق کا ہے، جبکہ دوسرا پہلو ریاستی گورننس اور شفافیت کا ہے۔
مذہبی اعتبار سے مسجد کی مسماری ایک شدید ردعمل پیدا کرنے والا واقعہ ہے۔
آئینی اعتبار سے اگر زمین ریاستی ملکیت ہے اور اس پر تعمیر غیر قانونی تھی، تو قانون کا اطلاق یکساں ہونا چاہیے۔
انتظامی اعتبار سے یہ معاملہ اس وقت زیادہ متنازع ہو جاتا ہے جب اسی علاقے میں دیگر تعمیرات کو برقرار رکھا جائے اور صرف مخصوص عمارت کو نشانہ بنایا جائے۔
مدنی مسجد کا واقعہ صرف ایک مذہبی عمارت کی مسماری ہی نہیں بلکہ ریاستی نظام میں قانون کی غیر جانبداری کا امتحان بھی ہے۔ اگر حکومت اس معاملے کو شفاف تحقیقات، غیر جانبدار عدالتی نگرانی اور یکساں قانون کے اطلاق کے ذریعے حل نہیں کرتی تو یہ محض مذہبی حلقوں میں ہی نہیں بلکہ پورے معاشرے میں بداعتمادی اور تقسیم کو بڑھا دے گا۔ امید ہے کہ ارباب اختیار اس مسئلے پر خود کو جھنجھوڑنے کی زحمت گوارا کریں گے ان شا الله