اسلام آباد(ایم اے شام ) ملک ریاض کی ہاؤسنگ سوسائٹی بحریہ ٹاؤن کے اثاثوں کی نیلامی آج ہوگی۔ یہ نیلامی اسلام آباد کے سیکٹر جی سکس ون میں واقع نیب راولپنڈی کے دفتر میں ہو گی۔
پراپرٹی ٹائیکون ملک ریاض کی ہاؤسنگ سوسائٹی بحریہ ٹاؤن کے اثاثوں کی نیلامی آج ہونے جا رہی ہے۔
قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے مقرر کی گئی یہ نیلامی اسلام آباد کے سیکٹر جی سکس ون میں واقع نیب راولپنڈی کے دفتر میں ہو گی۔
دوسری جانب تاہم بحریہ ٹاؤن نے گذشتہ روز (بدھ کو) ان اثاثوں کی نیلامی کو روکنے کے لیے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی، جس میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کو چیلنج کیا گیا تھا۔
بحریہ ٹاؤن کے وکیل اور پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر فاروق نائیک کی جانب سے جمع کروائی گئی اس درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دیا جائے اور اپیل پر فیصلہ ہونے تک جمعرات (سات اگست) کو ہونے والی اس نیلامی کا عمل معطل کیا جائے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے پانچ اگست کو جائیدادوں کی نیلامی کے خلاف بحریہ ٹاؤن کی درخواست مسترد کرتے ہوئے نیب کو اس ہاؤسنگ سوسائٹی کی پراپرٹی کی نیلامی کی اجازت دی تھی۔
اس وقت دبئی میں مقیم ملک ریاض پاکستان کی امیر ترین اور بااثر کاروباری شخصیات میں شمار ہوتے ہیں۔
نیب کی جانب سے جاری کیے گئے بیان کے مطابق آج نیلام کیے جانے والے اثاثوں میں راولپنڈی میں بحریہ ٹاؤن فیز ٹو میں واقع پلاٹ نمبر ڈی سیون پر قائم کارپوریٹ آفس، پلاٹ نمبر ای سیون پر دوسرا کارپوریٹ آفس، روبائش مارکی اور لان، بحریہ گارڈن سٹی گالف کورس کے قریب واقع جائیدادیں اور بحریہ ٹاؤن اسلام آباد کی املاک بھی شامل ہیں۔
جہاں عدالت کا یہ فیصلہ ملک ریاض کو ممکنہ طور پر متاثر کر سکتا ہے، وہیں دوسری جانب بحریہ ٹاؤن کے لاکھوں رہائشی بھی اس عدالتی فیصلے کے بعد کشکمش میں ہیں۔
بحریہ ٹاؤن کے رہائشی سبحان جنجوعہ نے نیلامی پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اسے ’ایک عام شہری کے لیے بھی باعث تشویش‘ قرار دیا۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا: ’اگر کسی کی جائیدادیں اس انداز سے نیلام کی جائیں تو یہ زیادتی ہے، چاہے وہ پھر ملک ریاض ہو یا کوئی عام شہری۔‘
سبحان کا کہنا تھا کہ ملک ریاض پر دباؤ ڈالا جا رہا تھا کہ وہ ’عمران خان کے خلاف 190 ملین پاؤنڈ ریفرنس میں وعدہ معاف گواہ بنیں، اگر وہ بیان دے دیتے تو شاید بحریہ ٹاؤن آج بھی ویسا ہی ترقی یافتہ ہوتا۔‘
انہوں نے بتایا کہ وہ 1999 سے بحریہ ٹاؤن سے وابستہ ہیں۔ ’یہ علاقہ ایک محفوظ اور بہترین طرزِ زندگی فراہم کرتا ہے، لیکن حالیہ عدالتی فیصلوں کے باعث پراپرٹی کی خرید و فروخت پر ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کی پابندیاں لگ چکی ہیں۔‘
نیلامی کے اثرات سے متعلق سبحان نے بتایا کہ اس سے ’لاکھوں ڈیلرز، کنسٹرکشن ورکرز اور سرمایہ کار متاثر ہوئے ہیں۔‘ ساتھ ہی انہوں نے سوال اٹھایا: ’جب ملک سے پیسہ باہر جا رہا تھا تو ادارے کہاں تھے؟ اور اب صرف بحریہ کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔‘
انہوں نے حکام سے مطالبہ کیا کہ ’اسلام آباد اور راولپنڈی کے سابق کمشنرز، ڈپٹی کمشنرز، راولپنڈی ڈیولپمنٹ اتھارٹی اور کیپیٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے چیئرمین اور فیڈرل بورڈ آف ریوینیو کے افسران کے خلاف بھی کارروائی ہونی چاہیے کیونکہ ان کی غفلت سے ہی یہ سب ممکن ہوا ہے۔‘
بقول سبحان: ’ہماری جائیدادیں اب ڈی ویلیو ہو چکی ہیں اور اگر بحریہ کو کوئی اور سوسائٹی ٹیک اوور کرتی ہے تو وہ ٹیک اوور نہیں بلکہ کیپچر ہوگا۔ ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی (ڈی ایچ اے) بھی وہ سہولت نہیں دیتا جو بحریہ دیتا ہے، لیکن اب ہماری طرزِ زندگی متاثر ہو رہی ہے۔‘
دوسری جانب بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض نے ایکس پر اپنے بیان میں کہا کہ اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو بحریہ ٹاؤن مکمل طور پر بند ہونے کے قریب پہنچ چکا ہے۔
ان کا کہنا تھا: ’ہماری رقوم کی روانی مکمل طور پر تباہ ہو چکی ہے، روزمرہ سروسز فراہم کرنا ناممکن ہو گیا ہے۔ اپنے دسیوں ہزاروں سٹاف کی تنخواہیں ادا کرنے کے قابل نہیں ہیں اور حالات یہاں تک پہنچ چکے ہیں کہ ہم پاکستان بھر میں بحریہ ٹاؤن کی تمام سرگرامیاں مکمل طور پر بند کرنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔ُ
ملک ریاض نے حکومت اور متعلقہ اداروں سے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ انہیں ’سنجیدہ مکالمے اور باوقار حل کی طرف واپسی‘ کا موقع دیا جائے تاکہ معاملہ کسی انجام تک پہنچ سکے۔
ساتھ ہی انہوں نے ثالثی کے عمل میں شریک ہونے کی پیشکش کرتے ہوئے کہا کہ وہ کسی بھی غیرجانبدار ثالثی میں شامل ہو کر اس فیصلے کو 100 فیصد قبول کریں گے اور اگر فیصلے کے مطابق کوئی مالی ادائیگی کرنی پڑی تو وہ رقم اد…