تحریر: ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی
دنیا بھر میں موسمیاتی تبدیلیوں اور ماحولیاتی آلودگی کے بڑھتے ہوئے خدشات نے پالیسی سازوں کو اس بات پر مجبور کیا ہے کہ وہ پائیدار ترقی کے ایسے راستے تلاش کریں جو نہ صرف معیشت کو فروغ دیں بلکہ ماحول کو بھی محفوظ بنائیں۔ ان کوششوں میں الیکٹرک وہیکلز (EVs) کا فروغ ایک نمایاں قدم ہے۔ پاکستان میں اس موضوع پر پہلی سنجیدہ پیش رفت 2020 میں اُس وقت کی گئی جب وفاقی حکومت نے پہلی بار “الیکٹرک وہیکل پالیسی” کی منظوری دی، جس کا مقصد 2030 تک تمام نئی گاڑیوں میں سے 30 فیصد کو الیکٹرک میں تبدیل کرنا تھا۔
تاہم اس پالیسی پر عملدرآمد کے حوالے سے عملی اقدامات، سرمایہ کاری، اور عوامی آگاہی میں خاطرخواہ پیش رفت نہ ہو سکی۔ اب شہباز شریف حکومت کی حالیہ کوشش ایک نئے جذبے، وسعت اور عوامی شمولیت کے ساتھ سامنے آئی ہے۔
وزیراعظم شہباز شریف کی زیرِ صدارت اسلام آباد میں منعقدہ اجلاس میں الیکٹرک وہیکلز کی عوامی سطح پر فراہمی، مقامی صنعت کی ترقی اور ماحولیاتی بہتری کے لیے ایک جامع حکومتی لائحہ عمل پر زور دیا گیا۔ اس اجلاس میں درج ذیل نکات قابلِ توجہ ہیں۔
اس فیصلے کا مقصد بظاہر روزگار کی فراہمی ہے، لیکن اس میں ایک بڑی معاشی پالیسی چھپی ہے جو خود انحصاری اور مقامی مینوفیکچرنگ کو بڑھاوا دے سکتی ہے۔ اگر ان رکشوں اور لوڈرز کی تیاری مقامی سطح پر کی جائے تو یہ پاکستان کی گاڑی ساز صنعت کے لیے نئی زندگی ثابت ہو سکتی ہے۔
بورڈ کے ٹاپرز کو انعام کے طور پر الیکٹرک بائیکس دینا ایک علامتی قدم سے بڑھ کر ہے؛ یہ ایک ذہین طبقے کو ماحول دوست ٹیکنالوجی سے وابستہ کرنے کی کوشش ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا اس اقدام کے لیے شفاف طریقہ کار اور میرٹ کی بنیاد موجود ہے؟
الیکٹرک گاڑیوں کی تیاری، مرمت، پرزہ جات اور چارجنگ اسٹیشنز کا نیٹ ورک تشکیل دینا اس اسکیم کی کامیابی کی بنیادی شرط ہے۔ وزیراعظم کی ہدایت کہ ایک مکمل ایکوسسٹم قائم کیا جائے، ایک دانشمندانہ قدم ہے، بشرطیکہ اس پر تیز رفتار اور شفاف عمل ہو۔
اس اسکیم میں تھرڈ پارٹی آڈٹ کی ہدایت انتہائی اہم ہے تاکہ حکومتی معاونت شفاف، غیر جانبدار اور میرٹ پر مبنی ہو۔ پاکستان کی پالیسیوں میں بداعتمادی کی فضا اسی وقت ختم ہو سکتی ہے جب ہر حکومتی اقدام میں احتسابی عمل واضح ہو۔
یہ بات خوش آئند ہے کہ وزیراعظم نے الیکٹرک وہیکل پالیسی کو صرف ٹرانسپورٹ کا مسئلہ نہیں بلکہ ماحولیاتی بحران کے حل کے طور پر بھی دیکھا ہے۔ پاکستان، جو دنیا کے ان 10 ممالک میں شامل ہے جو ماحولیاتی تبدیلی سے شدید متاثر ہیں، وہاں ایندھن پر انحصار کم کرنا اور ہوا کی آلودگی گھٹانا ناگزیر ہو چکا ہے۔
الیکٹرک گاڑیاں فضائی آلودگی کو کم کرنے، ایندھن کے درآمدی بل میں کمی لانے، اور متبادل توانائی کے فروغ میں کلیدی کردار ادا کر سکتی ہیں۔ پاکستان سالانہ اربوں ڈالر صرف تیل کی درآمد پر خرچ کرتا ہے؛ الیکٹرک گاڑیوں کا فروغ نہ صرف اس خرچ میں کمی لا سکتا ہے بلکہ ملک کو توانائی کے میدان میں خود کفیل بنانے کے عمل کو بھی تیز کر سکتا ہے۔
اس پالیسی کے چند اہم تنقیدی پہلو بھی ہیں جن میں سرفہرست عمل درآمد کا فقدان ہے۔ سابقہ پالیسیوں کی طرح اگر اس بار بھی صرف اعلانات اور بیانات تک بات محدود رہی تو یہ ایک اور ضائع شدہ موقع ہوگا۔
اگر درآمد شدہ گاڑیوں پر انحصار کیا گیا تو مقامی صنعت کو فائدہ نہیں ہوگا۔ الیکٹرک وہیکل پالیسی کی کامیابی کا دارومدار مقامی سرمایہ کاری، ہنرمند افرادی قوت، اور سازوسامان کی دستیابی پر ہے۔
پاکستان میں ابھی تک چارجنگ اسٹیشنز کی تعداد محدود ہے۔ اگر یہ سہولت عام نہیں ہوگی تو عوام کو الیکٹرک گاڑیوں کی طرف مائل کرنا مشکل ہوگا۔
وزیراعظم شہباز شریف کی الیکٹرک وہیکل پالیسی موجودہ ماحولیاتی، معاشی اور سماجی تناظر میں ایک مثبت، ضروری اور بصیرت افروز قدم ہے۔ یہ پالیسی اگر شفافیت، میرٹ اور جامع انفراسٹرکچر کے ساتھ نافذ کی جائے تو یہ پاکستان میں نہ صرف ماحولیاتی بہتری کا باعث بنے گی بلکہ بیروزگاری اور ایندھن کی درآمد پر انحصار کم کرنے میں بھی مددگار ہوگی۔ اس سلسلے میں چند سفارشات پر عمل لکیا جائے۔ مقامی سطح پر الیکٹرک گاڑیوں کی تیاری کے لیے مالی مراعات دی جائیں۔ ووکیشنل انسٹیٹیوٹس میں الیکٹرک وہیکل مینٹیننس سے متعلق کورسز متعارف کروائے جائیں۔ ہر شہر میں چارجنگ اسٹیشنز کا نیٹ ورک جلد از جلد قائم کیا جائے۔ تھرڈ پارٹی ویلیڈیشن کو شفاف اور آزاد بنایا جائے تاکہ اسکیم کا اعتماد بحال رہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان پائیدار ترقی کی راہ پر سنجیدگی سے قدم رکھے اور الیکٹرک وہیکل پالیسی اس سفر کا ایک اہم سنگ میل بن سکتی ہے۔