لندن (روشن پاکستان نیوز) برطانیہ کی عدالت نے پاکستان پیپلز پارٹی آزاد کشمیر کے صدر چوہدری محمد یاسین اور ان کے بیٹے عامر یاسین کے حق میں ہتک عزت کا تاریخی فیصلہ سناتے ہوئے یوٹیوبر ابرار قریشی کو مجموعی طور پر £260,000 (دو لاکھ ساٹھ ہزار پاؤنڈ) ہرجانے کی ادائیگی اور مستقبل میں ہتک آمیز مواد کی اشاعت سے باز رہنے کا حکم دیا ہے۔
انگلینڈ اور ویلز کی ہائی کورٹ میں جسٹس ہیدر ولیمز نے فیصلہ سناتے ہوئے قرار دیا کہ نومبر 2021 میں ابرار قریشی کی جانب سے یوٹیوب اور فیس بک پر کی گئی اشاعتیں جھوٹی، بے بنیاد اور دعویداروں کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کے لیے تھیں۔ ان ویڈیوز میں ایک سابق ملازم محمد سبیل کا انٹرویو شامل تھا، جس میں چوہدری یاسین اور عامر یاسین پر سنگین نوعیت کے الزامات لگائے گئے تھے، جن میں بلیک میلنگ، جنسی زیادتی، بدعنوانی اور دیگر جرائم شامل تھے۔
عدالت نے ان الزامات کو مکمل طور پر بے بنیاد اور ہتک آمیز قرار دیا۔ مدعا علیہ (ابرار قریشی) نے مقدمے کے آغاز ہی پر نہ تو سچائی کا دفاع کیا اور نہ ہی یہ ثابت کر سکا کہ اس کا مواد عوامی مفاد میں تھا۔ عدالت نے اس کے طرزِ عمل کو غیر ذمہ دار اور صحافتی اخلاقیات کے منافی قرار دیا۔
عدالت نے مدعا علیہ کو حکم دیا کہ وہ چوہدری یاسین اور عامر یاسین میں سے ہر ایک کو £130,000 بطور ہرجانہ ادا کرے۔ اس میں ذہنی اذیت، ساکھ کو نقصان اور اضافی ہتکِ عزت کے نقصانات کی تلافی شامل ہے۔ علاوہ ازیں، £21,829 فی دعویدار سود کی مد میں بھی شامل ہے، جو 8 اگست 2025 تک ادا کرنا لازم ہے۔
فیصلے کے تحت یوٹیوبر کو سختی سے روک دیا گیا ہے کہ وہ آئندہ کوئی بھی ہتک آمیز مواد شائع نہ کرے۔ مزید برآں، عدالت نے اسے حکم دیا ہے کہ وہ اس عدالتی فیصلے کا خلاصہ سات دن کے اندر اپنے تمام سوشل میڈیا پلیٹ فارمز اور ویب سائٹس پر شائع کرے، تاکہ وہی ناظرین جو اصل الزامات دیکھ چکے ہیں، حقیقت سے آگاہ ہو سکیں۔
عدالت نے مدعا علیہ کو دعویداروں کے قانونی اخراجات بھی ادا کرنے کا پابند کیا ہے، جس کی عبوری رقم £65,000 مقرر کی گئی ہے، اور اس پر بھی سود لاگو ہو گا۔
یہ فیصلہ برطانیہ میں ہتک عزت کے قانون کے تحت ایک اہم نظیر کے طور پر سامنے آیا ہے، جو سوشل میڈیا کے دور میں جھوٹے اور غیر ذمہ دارانہ مواد کے خلاف متاثرہ فریقین کو قانونی تحفظ فراہم کرتا ہے۔
ڈاکٹر محمد یاسین کا کیس سے متعلق موقف
چوہدری یاسین بمقابلہ ابرار قریشی کا مقدمہ ایک ذاتی تنازع نہیں بلکہ ایک قانونی کارروائی تھی، جو ہتکِ عزت کے دائرہ کار میں آتی ہے۔ ابرار قریشی، جو ایک باصلاحیت اور نوجوان یوٹیوبر کے طور پر جانے جاتے ہیں، نے ایک انٹرویو کیا جس میں ایک تیسرے فریق نے چوہدری یاسین اور ان کے صاحبزادے عامر یاسین پر سنگین نوعیت کے الزامات عائد کیے۔ ان بیانات کو سخت ہتک آمیز قرار دیا گیا اور دعویٰ کیا گیا کہ ان سے ان دونوں کی ساکھ کو شدید نقصان پہنچا۔ اس بنیاد پر چوہدری یاسین نے قانونی کارروائی کا فیصلہ کیا۔
اب جبکہ عدالت نے اس مقدمے کا فیصلہ سنا دیا ہے، تو ضروری ہے کہ اس معاملے کو دانشمندی اور مثبت سوچ کے ساتھ بند کیا جائے۔ ابرار قریشی کو چاہیے کہ وہ اپنی کوتاہی کو تسلیم کرتے ہوئے چوہدری یاسین سے باقاعدہ معذرت کریں۔ اس معاملے کو طول دینا کسی کے حق میں نہیں ہو گا، بلکہ وقت اور وسائل کا ضیاع ہو گا۔ یہ مقدمہ مستقبل میں قانونی نظائر قائم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، اور آن لائن بدنامی سے بچاؤ کے لیے ایک مؤثر مثال بن سکتا ہے۔
حالیہ برسوں میں کشمیری اور پاکستانی کمیونٹی کے اندر آن لائن پلیٹ فارمز پر ہتک آمیز اور بے بنیاد مواد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ بہت سے ڈیجیٹل مواد تخلیق کرنے والے افراد ذمہ داری سے عاری ہو کر ایسی گفتگو کو فروغ دے رہے ہیں جو نہ صرف ذاتی وقار کو مجروح کرتی ہے بلکہ کمیونٹی کے اتحاد کو بھی نقصان پہنچاتی ہے۔
میں تمام ڈیجیٹل مواد تخلیق کرنے والوں اور صحافیوں سے مؤدبانہ اپیل کرتا ہوں کہ وہ اپنے الفاظ اور ویڈیوز کے دور رس اثرات کو سمجھیں۔ شخصیات کو نشانہ بنانے کے بجائے، مثبت شعور بیدار کرنے، تعمیری مکالمہ فروغ دینے اور نظامی مسائل کو اجاگر کرنے پر توجہ دی جائے۔ معاشرتی خرابیوں اور کرپشن کا سبب صرف افراد نہیں بلکہ ادارہ جاتی کمزوریاں اور سماجی روایات بھی ہوتی ہیں۔
آئیے ہم سب اپنے پلیٹ فارمز کو دیانتداری، سچائی اور اجتماعی فلاح کے لیے استعمال کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں انصاف، ایمانداری اور احتساب کے راستے پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔