منگل,  22 جولائی 2025ء
بلوچستان: غیرت کے نام پر قتل، ریاستی رٹ کو چیلنج

تحریر: ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی

بلوچستان کی قبائلی، نیم قبائلی اور دیہی معاشرت میں غیرت کے نام پر قتل اور سرداری نظام کے سائے میں کیے جانے والے ظلم و ستم کی تاریخ طویل ہے۔ برصغیر کی تقسیم سے قبل سے لے کر موجودہ پاکستان میں بھی بلوچستان کا خطہ معاشی، تعلیمی اور قانونی محرومیوں کا شکار رہا ہے۔ ان محرومیوں نے جہاں ایک طرف سیاسی بےچینی کو جنم دیا، وہیں دوسری طرف یہاں کی روایتی قبائلی اقدار نے ریاستی قوانین کی عملداری کو شدید چیلنج کیا ہے۔

پسند کی شادی یا عورت کے حقِ انتخاب کو اکثر “روایتی غیرت” کے نام پر کچل دیا جاتا ہے۔ غیرت کے نام پر قتل کو بعض اوقات سرداری اور قبائلی وقار سے جوڑ کر جواز فراہم کیا جاتا ہے، جو کہ انسانی حقوق اور آئینی تحفظات کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔

حالیہ واقعے میں ریاست بے بس دکھائی دے رہی ہے جبکہ قبائلی رویے طاقتور نظر آرہے ہیں۔ چند دن پہلے منظرِ عام پر آنے والی ویڈیو نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا ہے ۔ اس ویڈیو میں ایک خاتون اور مرد کو بے دردی سے قتل کرتے ہوئے دکھایا گیا، جو انسانی شرافت، قانون اور تہذیب تینوں کی توہین ہے۔ ویڈیو میں نظر آنے والے مسلح افراد کا چہرہ واضح ہے، مگر مقام نامعلوم ہے جو اس امر کی علامت ہے کہ مجرموں کو ریاستی قانون کا کوئی خوف نہیں۔

وزیراعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی کی طرف سے اس ویڈیو کا نوٹس لینا اور 13 مشتبہ افراد کی گرفتاری ریاستی ردعمل کا ایک فوری اور مثبت پہلو ہے۔ تاہم سوال یہ ہے کہ اس واقعے کا سدباب کیوں نہ ہو سکا؟ کیا ریاست ان علاقوں میں اپنی موجودگی قائم کرنے میں ناکام ہو چکی ہے جہاں قبیلوی طاقتیں قانون سے بالا تر سمجھی جاتی ہیں؟

وزیراعلیٰ، ترجمان حکومت اور پولیس حکام نے جس تیزی سے بیانات دیئے ہیں اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت واقعے کی شدت کو سمجھتی ہے۔ تاہم عملی اقدام صرف گرفتاری سے مکمل نہیں ہوتا، بلکہ عدالتی کارروائی، گواہوں کا تحفظ اور متاثرہ خاندان کو انصاف کی فراہمی ہی وہ اصل امتحان ہے جس میں ریاست کو کامیابی حاصل کرنی ہے۔

وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کا بیان کہ “ایسے مجرم کسی رعایت کے مستحق نہیں” ایک اخلاقی اور قانونی اصول کی بازگشت ہے لیکن اس بیان کے ساتھ ساتھ ماضی میں ایسے واقعات کے تناظر میں عدالتی نظام کی خامیوں کو بھی مدنظر رکھنا ضروری ہے جہاں اکثر اوقات قبائلی دباؤ، دھمکیاں، اور ثبوتوں کی عدم دستیابی کی وجہ سے انصاف ادھورا رہ جاتا ہے۔

قبائلی نظام اور ریاستی قانون میں کھلم کھلا تصادم نظر آرہا ہے۔ بلوچستان میں سرداری نظام اور قبائلی عدالتیں (جرگہ سسٹم) ایک متوازی قانونی نظام کی صورت میں موجود ہیں۔ یہ نظام اکثر عورتوں کو ملکیت سمجھتا ہے اور ان کے بنیادی انسانی و قانونی حقوق کو نظرانداز کرتا ہے۔ پسند کی شادی کو بدنامی سمجھا جاتا ہے اور جوڑوں کو قتل کر دینا قبائلی “عزت” کی حفاظت مانا جاتا ہے۔

یہ وہ مقام ہے جہاں جدید ریاستی قانون اور قبائلی روایات کا تصادم کھل کر سامنے آتا ہے۔ اگر ریاستی ادارے اس تصادم میں خاموش تماشائی بنے رہے تو قانون کی عملداری ایک خواب بن کر رہ جائے گی۔

سوشل میڈیا نے اس بہیمانہ واقعے کو سامنے لا کر ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔ بصورتِ دیگر، شاید یہ واقعہ بھی ہزاروں دیگر واقعات کی طرح قبائلی رازداری کی چادر میں دفن ہو جاتا۔ میڈیا کی فوری کوریج نے ریاستی اداروں کو حرکت میں آنے پر مجبور کیا اور یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ جدید ٹیکنالوجی مظلوموں کی آواز بن سکتی ہے، بشرطیکہ اسے سننے والی ریاست موجود ہو۔

بلوچستان میں شادی شدہ مرد و عورت کے قتل کا یہ واقعہ کوئی معمولی سانحہ نہیں بلکہ ریاستی رٹ، سماجی اقدار، عدالتی عملداری، اور انسانی حقوق کی بقا کا سوال ہے۔ وقتی گرفتاریوں سے مسئلہ حل نہیں ہو گا بلکہ حکومت کو درج ذیل اقدامات اٹھانے کی اشد ضرورت ہے۔ قبائلی علاقوں میں ریاستی قانون کا نفاذ یقینی بنایا جائے۔ غیرت کے نام پر قتل کے خلاف سخت قانون سازی کی جائے اور موجودہ قوانین پر مؤثر عملدرآمد ہو۔ پولیس، سی ٹی ڈی اور عدالتی اداروں کی استعدادِ کار میں اضافہ کیا جائے۔ متاثرہ خاندانوں کو تحفظ اور قانونی مدد فراہم کی جائے۔ جرگہ اور سرداری نظام کے انسانی حقوق سے متصادم پہلوؤں کا ازالہ کیا جائے۔

اگر اب بھی ریاست نے صرف “بیانات” پر اکتفا کیا تو بلوچستان جیسے حساس خطے میں قانون شکنی اور ظلم کی روایت مزید مضبوط ہو جائے گی اور یہ صرف بلوچستان ہی نہیں بلکہ پورے پاکستان کی ریاستی ساکھ کا زوال ہو گا۔

یہ واقعہ ایک اخلاقی، قانونی اور ریاستی بحران کا اشاریہ ہے۔ اسے صرف ایک کرائم کیس کے طور پر نہیں، بلکہ پاکستان میں قانون کی حکمرانی کے ایک امتحان کے طور پر دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اگر ریاست واقعی مظلوموں کے ساتھ ہے تو عمل سے فوری، شفاف اور مکمل انصاف کے ذریعے یہ ثابت بھی ہونا چاہیے ۔

مزید خبریں