لندن(روشن پاکستان نیوز )ایپنگ میں بیل ہوٹل میں مقیم ایک مہاجر کی مبینہ جنسی زیادتیوں کے بعد شروع ہونے والے احتجاجی مظاہروں نے نیا رخ اختیار کر لیا ہے۔ مظاہرین کے ایک طبقے نے پولیس پر غصہ نکالنا شروع کر دیا، جبکہ بعض باشعور شہریوں نے اس طرز عمل کو غیر عقلمندانہ اور نقصان دہ قرار دیا ہے۔
شہریوں کا کہنا ہے کہ لیبر پارٹی سے یہ توقع کی جا رہی تھی کہ وہ برسرِ اقتدار آ کر برطانیہ میں قانون کی بالادستی قائم کرے گی اور شہریوں، خاص طور پر بچوں، کے تحفظ کو یقینی بنائے گی۔ لیکن حالیہ واقعات نے عوام کی امیدوں پر پانی پھیر دیا ہے۔ ایک مقامی شہری نے غصے کا اظہار کرتے ہوئے کہا، “ہم نے لیبر پارٹی کو ووٹ اس لیے دیا تھا کہ ہمیں لگا اب ہمارے بچے محفوظ ہوں گے، مگر صورت حال پہلے سے بھی بدتر ہو چکی ہے۔”
دوسری طرف، بعض مظاہرین نے غصہ پولیس پر نکالتے ہوئے سرکاری گاڑیوں کو نقصان پہنچایا اور اہلکاروں کے ساتھ بدسلوکی کی۔ اس رویے پر عام شہریوں نے شدید ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔ ایک مقامی شخص نے کہا، “احتجاج ہر شہری کا حق ہے، لیکن عوام کے ٹیکس کے پیسوں سے خریدی گئی پولیس کی گاڑیوں پر غصہ نکالنا کہاں کی عقلمندی ہے؟ اس کا نقصان تو ہمیں ہی ہوتا ہے۔”
تجزیہ کاروں کے مطابق لیبر پارٹی کی پناہ گزین پالیسی اور مہاجرین کی آبادکاری سے متعلق ناقص حکمت عملی نے حالات کو اس نہج پر پہنچایا ہے جہاں مقامی کمیونٹی خود کو غیرمحفوظ محسوس کر رہی ہے۔ بیل ہوٹل جیسے مقامات کو بغیر کسی نگرانی یا مناسب سیکیورٹی کے مہاجرین کے لیے استعمال کرنا نہ صرف غیر ذمہ دارانہ اقدام ہے بلکہ یہ عوامی اعتماد کو بھی شدید مجروح کرتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ لیبر پارٹی کو چاہیے کہ وہ صرف نعروں سے آگے بڑھ کر زمینی حقائق کا سامنا کرے اور فوری طور پر ایسی پالیسیز وضع کرے جو مقامی آبادی کے تحفظ کو یقینی بنائیں اور معاشرتی توازن کو برقرار رکھیں۔
احتجاجی مظاہرے بدستور جاری ہیں اور عوامی غصہ روز بروز بڑھتا جا رہا ہے، جس کا زیادہ تر نشانہ لیبر حکومت کی ناقص کارکردگی اور انتظامی ناکامی بنی ہوئی ہے۔ اگر حکومت نے فوری اقدامات نہ کیے تو صورتحال مزید سنگین ہو سکتی ہے۔
مزید پڑھیں: پاک فضائیہ کے طیاروں نے برطانیہ ایئر ٹیٹو شو میں عالمی اعزاز جیت لیے