کراچی (روشن پاکستان نیوز): ٹی وی میزبان، صحافی، اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی چیئرمین عمران خان کی سابق اہلیہ ریحام خان نے حال ہی میں باضابطہ طور پر سیاست میں قدم رکھتے ہوئے ’پاکستان ریپبلک پارٹی‘ (پی آر پی) کے قیام کا اعلان کیا۔ تاہم ان کے اس اعلان کے بعد سوشل میڈیا اور عوامی حلقوں میں شدید تنقید دیکھنے میں آئی ہے۔
ریحام خان نے 15 جولائی کو کراچی پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے اپنی سیاسی جماعت کا اعلان کیا، لیکن طویل پریس کانفرنس کے باوجود انہوں نے نہ تو پارٹی منشور کا اعلان کیا اور نہ ہی عہدیداروں کے ناموں سے متعلق کوئی معلومات فراہم کیں۔ ان کے مطابق ان کی جماعت میں وہی افراد شامل ہوں گے جو عوام کی حقیقی نمائندگی کا ارادہ رکھتے ہیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ پارٹی میں سوشل میڈیا اسٹارز، ٹک ٹاکرز یا محض نعرے لگانے والے افراد کو شامل نہیں کیا جائے گا بلکہ سنجیدہ اور عوام دوست افراد کو موقع دیا جائے گا۔
ریحام خان نے یہ بھی کہا کہ انہیں ماضی میں کئی سیاسی جماعتوں سے شمولیت کی دعوتیں دی گئیں مگر انہوں نے تمام آفرز مسترد کر دیں۔ وہ خود بھی گزشتہ انتخابات میں سیاسی طور پر متحرک نہیں رہیں، تاہم اب اپنی پارٹی کے تحت سرگرم سیاست میں قدم رکھنے کا ارادہ رکھتی ہیں۔
مزید پڑھیں: ’سوشل میڈیا پر ریاست مخالف سرگرمیاں‘، عمران خان کی ہمشیرہ علیمہ خان کو نوٹس جاری
ریحام خان کے اس اعلان کے بعد سوشل میڈیا پر شدید ردِعمل سامنے آیا۔ متعدد صارفین اور سیاسی مبصرین نے ان پر الزام عائد کیا کہ وہ عمران خان کے نام اور شہرت کو استعمال کرتے ہوئے اپنی سیاست چمکانا چاہتی ہیں۔ سوشل میڈیا ایکٹیوسٹس کا کہنا تھا کہ اگر ریحام خان کا عمران خان سے کوئی تعلق نہ ہوتا تو انہیں میڈیا میں اتنی توجہ کبھی نہ ملتی۔ ایک صارف نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا، ’’ریحام خان کو صرف اس لیے سنجیدگی سے لیا جاتا ہے کیونکہ وہ عمران خان کی سابقہ اہلیہ ہیں۔ ورنہ ان کا سیاسی تجربہ نہ ہونے کے برابر ہے۔‘‘
دوسری جانب، کچھ ناقدین نے ان کی پریس کانفرنس میں منشور یا عملی لائحہ عمل پیش نہ کرنے کو غیر سنجیدگی قرار دیا۔ سوشل میڈیا پر یہ سوال بھی اٹھایا گیا کہ ریحام خان کی جماعت کیا واقعی عوامی مسائل کا حل پیش کر سکے گی یا یہ محض ایک وقتی میڈیا اسٹنٹ ہے۔
سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان میں پہلے ہی درجنوں چھوٹی سیاسی جماعتیں فعال ہونے کا دعویٰ کرتی ہیں، جن کا عوامی سطح پر کوئی خاطر خواہ اثر نہیں ہوتا۔ ایسے میں ریحام خان کا سیاست میں آنا اور بغیر منشور کے جماعت کا اعلان محض میڈیا کی توجہ حاصل کرنے کی کوشش نظر آتا ہے۔
اگرچہ ریحام خان نے ایک نئی جماعت کے قیام کا اعلان کیا ہے، لیکن عوامی ردعمل اور سوشل میڈیا پر سامنے آنے والی تنقید اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ انہیں عوامی اعتماد حاصل کرنے کے لیے ابھی ایک طویل سفر طے کرنا ہوگا۔ ان کے سیاسی مستقبل کا انحصار اس بات پر ہوگا کہ وہ واقعی کس حد تک عوامی مسائل کے حل کے لیے سنجیدہ اقدامات کرتی ہیں یا نہیں۔