اسلام آباد (روشن پاکستان نیوز) – صوبائی دارالحکومت لاہور میں ایک نجی ٹی وی چینل سے وابستہ بعض صحافیوں کی جانب سے غیر ذمہ دارانہ اور غیر اخلاقی مواد نے معاشرتی اقدار اور صحافتی اصولوں کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی حالیہ ویڈیوز اور رپورٹس میں دیکھا گیا ہے کہ یہ افراد “کنٹنٹ” کے نام پر ایسے مناظر اور گفتگو نشر کر رہے ہیں جو کسی بھی مہذب اور اسلامی معاشرے میں ناقابلِ قبول تصور کیے جاتے ہیں۔ ان رپورٹس میں فحش جملے، بے ہودہ حرکات، اور اخلاقیات سے گری ہوئی گفتگو کو ایک عام سی بات کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے، جس پر سوشل میڈیا صارفین اور شہری حلقوں نے سخت ردعمل دیا ہے۔
عوامی رائے اس جانب اشارہ کر رہی ہے کہ ایسے صحافی اور چینلز نہ صرف معاشرتی بگاڑ کا باعث بن رہے ہیں بلکہ نئی نسل کے ذہنوں کو بھی آلودہ کر رہے ہیں۔ بہت سے صارفین کا کہنا ہے کہ میڈیا پر آزادی اظہار رائے کے نام پر ہر طرح کا مواد نشر کرنا ایک خطرناک رجحان بنتا جا رہا ہے، اور اگر اس پر بروقت قابو نہ پایا گیا تو مستقبل میں اس کے سنگین نتائج سامنے آ سکتے ہیں۔
ماہرین ابلاغیات کا کہنا ہے کہ صحافت کا مقصد ہمیشہ معاشرتی اصلاح، عوامی شعور کی بیداری اور ریاستی معاملات میں شفافیت کو فروغ دینا رہا ہے، لیکن جب یہی صحافت سنسنی، شہرت اور ریٹنگ کی دوڑ میں اخلاقیات کو پس پشت ڈال دے، تو وہ معاشرتی انتشار کا سبب بن جاتی ہے۔ انہوں نے اس امر پر زور دیا کہ میڈیا ہاؤسز کو اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کرنی چاہئے اور ایسے افراد کو اداروں سے الگ کرنا چاہئے جو صحافت کو بدنام کر رہے ہیں۔
یاد رہے کہ اسلام آباد کی ایک مقامی عدالت نے کچھ روز قبل ریاست مخالف بیانیہ پھیلانے والے 27 یوٹیوب چینلز کو بلاک کرنے کا حکم دیا تھا، جسے عوام نے سراہا تھا۔ شہریوں کا مطالبہ ہے کہ بالکل اسی طرز پر ایسے چینلز اور افراد پر بھی سخت کارروائی کی جائے جو سماجی اقدار کے خلاف مواد نشر کر رہے ہیں۔
پیمرا اور دیگر متعلقہ اداروں سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ وہ اپنے قوانین کو مؤثر طریقے سے نافذ کریں اور ایسے چینلز کے خلاف فوری کارروائی کریں جو فحاشی، عریانی اور غیر مہذب مواد کو فروغ دے رہے ہیں۔ عوامی حلقوں نے خبردار کیا ہے کہ اگر اس رجحان کو نہ روکا گیا تو معاشرہ اخلاقی لحاظ سے دیوالیہ پن کا شکار ہو سکتا ہے، جس کے اثرات نہ صرف موجودہ نسل بلکہ آنے والی نسلوں پر بھی پڑیں گے۔
پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے جہاں آئین اور قانون کے تحت اظہار رائے کی آزادی ضرور حاصل ہے، مگر اس آزادی کی ایک حد بھی مقرر ہے۔ کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ مذہب، تہذیب یا اخلاقیات کے نام پر معاشرتی بے راہ روی کو عام کرے۔ عوام کی جانب سے حکومت، عدلیہ اور متعلقہ اداروں سے پرزور اپیل کی جا رہی ہے کہ وہ فوری ایکشن لیں اور میڈیا کو اس کے اصل دائرہ کار میں واپس لایا جائے تاکہ ملک میں اخلاقی توازن اور معاشرتی ہم آہنگی کو برقرار رکھا جا سکے۔
مزید پڑھیں: نیشنل ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا پر غیر اخلاقی مواد، عوامی سطح پر شدید تشویش