هفته,  05 جولائی 2025ء
ہم چشم دید گواہ ہیں، … 5 جولائی 1977 کے
گستاخیاں!!

ہم چشم دید گواہ ہیں

… 5 جولائی 1977 کے

تحریر: خالد مجید

khalidmajeed925@gmail.com

“ہم چشم دید گواہ ہیں”،یہ صرف ایک سادہ جملہ نہیں ہوتا — یہ تاریخ کا وہ سچ ہوتا ہے جو وقت کے کانوں میں چیختا ہے، جو نسلوں کے ضمیر پر لکھا جاتا ہے۔
ہم چشم دید گواہ ہیں پانچ جولائی 1977 کے وطن عزیز پر مسلط ھوتے اندھیرے کے، ہم نے وہ رات دیکھی ہے…
وہ رات جب ملک کی فضاؤں میں سناٹا گھولا جا رھا تھا،
ہم گواہ ہیں اُس گھڑی کے جب ریڈیو پر ایک گھمبیر آواز نے کہا:
“منتخب حکومت کو ختم کرنے کی خبر تھی”

ہم نے اپنی آنکھوں سے اُن نوجوانوں کو سڑکوں پر گسیٹتے دیکھا جن کے ہاتھوں میں صرف بینر تھے، اور سینوں میں خواب۔
ہم نے اُن ماؤں کی آہیں سنی جن کے بیٹے صرف اس لیے پابند سلاسل ھوے، کوڑے کھانے کے لیے ٹکٹکیوں پر، عقوبت خانوں میں چڑے اور جلاوطن ہوئے کہ انہوں نے آئین کی بات کی۔

ہم نے دیکھا کہ قلم کے ساتھ کیا سلوک ہوا —
اخبار کا صفحہ ہر صبح ایک کٹا ہوا سنسر شدہ ہوتا تھا، ہم نے وہ عدالتیں دیکھی ہیں جہاں جج صاحبان آنکھیں جھکا کر فیصلے سناتے،
اور کوڑے وہ بھی گنے ہیں جو قیدیوں کی پیٹھ پر نہیں، جمہوریت کے سینے پر برسائے گئے۔ہم نے وہ جیلیں دیکھی ہیں جہاں صرف مجرم نہیں، رہنما بند تھے۔ہم نے وہ سلاخیں چھوئی ہیں جن کے پیچھے ضمیر قید تھا۔

ہمیں آج بھی وہ بچہ یاد ہے جس نے اپنی ماں سے پوچھا تھا:
“امی! کیا ابو چور تھے؟”
اور وہ ماں صرف خاموش رہی… کیونکہ اس کے شوہر کا جرم تھا:جمہوریت پر یقین۔

ہم وہ نسل ہیں جس نے سیاہ راتوں میں سناٹا نہیں، نعرے گونجتے سنے ہیں:
ہم نے جلوسوں کے درمیان بھاگتے ہوئے بچوں کو دیکھا،اور پیچھے آتے ہوئے لاٹھی بردار اہلکار۔

ہم وہ رات نہیں بھول سکتے جب لاہور میں آنسو گیس کے شعلوں سے آسمان بھی آنکھیں ملنے لگا۔
ہمیں کراچی کی سڑکوں پر وہ چاک گریبان یاد ہیں،
پشاور کی فضاؤں میں نعروں کا شور جو ہر سوال کے جواب میں گونجتا تھا۔

ہم چشم دید گواہ ہیں —
ہم نے جمہوریت کو بے کفن دفن ہوتے دیکھا تھا

“پانچ جولائی 1977 ایک روشن دن کی اندھیری رات” جمہوریت کا خون ہوا… عوام کی آواز چھینی گئی…
پانچ جولائی 1977 وہ دن تھا جب ایک آمر نے عوام کے حقِ حکمرانی پر شب خون مارا۔
ہم نہیں بھولے! آپ بھی مت بھولیں!
یومِ سیاہ – قوم کا ضمیر جگانے کا دن، 5 جولائی 1977 کی وہ رات جب صرف جمہوریت نہیں، خواب بھی قید کر دیے گئے تھے۔ پانچ جولائی صرف ایک تاریخ نہیں، یہ ایک مسلسل ماتم ہے، جو ہر سال میرے قلم کو رُلاتا ہے۔ پانچ جولائی: قوم کے ضمیر پر لگے ایک دھبے کا نام ھے یہ پاکستانی تاریخ کا وہ المناک دن ہے جب ایک آمر نے جمہوریت کے بدن کو تاریکی کی چادر اوڑھا دی تھی جنرل ضیاء الحق نے نہ صرف آئین کو معطل کیا بلکہ عوام کے حقِ رائے دہی پر زخم لگائے۔ اس دن پارلیمنٹ کو تالے لگائے گئے، سیاسی رہنماؤں کو قید کیا گیا، اور ایک مکمل سویلین حکومت کو “نظامِ اسلام” کے نام پر برطرف کر دیا گیا۔وہ رات نہ صرف ایک سیاسی دھچکا تھی بلکہ قومی شعور کے خلاف بھی ایک سازش تھی۔ اخبارات پر قدغن، اختلافِ رائے پر کوڑے، اور لوگوں کے ذہنوں پر خوف کا پہرہ لگا دیا گیا۔
پانچ جولائی ہمیں یاد دلاتی ہے کہ جمہوریت کوئی تحفہ نہیں بلکہ ایک مسلسل جدوجہد کا نتیجہ ہے۔ ہمیں ہر سال اس دن کو “یومِ سیاہ” کے طور پر منا کر نئی نسل کو بتانا ہے کہ کبھی پھر ایسا نہ ہو۔ یومِ سیاہ – ایک یاد، ایک درس، ایک عہد۔

مزید خبریں