تحریر: داؤد درانی
کسی بھی ملک کی معیشت کا دارومدار ٹیکس کے پیسے پر ہوتا ہے جن ممالک میں ذیادہ ٹیکس اکٹھا ہوتا ہے وہاں کی معیشت ترقی کرتی ہے اور جن ممالک میں ٹیکس چوری ہوتی ہے ان کی معیشت ہمیشہ عالمی مالیاتی اداروں کی غلام ہوتی ہے ۔
پاکستان بھی ان بد قسمت ممالک میں شامل ہے جہاں ٹکیس دینے والے طبقے سے کم ٹیکس وصول کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے مالی خسارے کو پورا کرنے کے لیے آئی ایم ایف جیسے عالمی مالیاتی اداروں سے بار بار بھاری سود پر قرضے لینے پڑتے ہیں اور اس کی واپسی نا ہونے کی وجہ سے ملکی معیشت ان اداروں کے کنٹرول میں چلی جاتی ہے ۔
پاکستان میں بد قسمتی سے صرف تنخواہ دار طبقے اور عام لوگوں سے ہی بزور شمشیر ٹیکس وصول کیا جاتا ہے اور ہر سال جب حکمرانوں کی عیاشیوں کی وجہ سے معیشت زبوں حالی کا شکار ہوتی ہے تو نئے قرضے لیے جاتے ہیں اور پھر ان قرضوں کی ادائیگی کے لیے ملک کے عام لوگوں کو نچوڑا جاتا ہے جبکہ اشرافیہ پر قطعاً ہاتھ نہیں ڈالا جاتا کیونکہ ملکی پالیسیوں کو بنانے میں اصل عمل دخل انہی کا ہوتا ہے ۔
پاکستان کا کاروباری طبقہ تنخواہ دار طبقے کی نسبت بہت ذیادہ پیسہ کماتا ہے لیکن انہیں پوری طرح سے ٹیکس نیٹ میں لایا ہی نہیں جا رہا جس کی وجہ سے ہر سال ٹیکس کی وصولی کا ہدف پورا نہیں ہوتا لہذا اس کمی کو پورا کرنے کے لیے تنخواہ دار طبقے کو کوہلو میں ڈال دیا جاتا ہے ۔ پاکستان کا ایک عام شہری انتہائی کم آمدن کے باوجود ماچس کی ڈبیہ پر بھی ٹیکس دینے پر مجبور ہے لیکن بڑے بڑے کاروبار کرنے والے اربوں روپے کمانے کے باوجود پوری طرح سے ٹیکس ادا نہیں کرتے ۔
اگر دیکھا جائے تو ٹیکس چوری کے اس مکروہ عمل میں ٹیکس جمع کرنے والے ادارے بھی شامل ہوتے ہیں جو ان لوگوں کو کہتے ہیں کہ تمھارا جتنا ٹیکس بنتا ہے اسے میں کم کردوں گا تم مجھے اس کے بدلے میں خوش کرو ۔ اسی طرح ٹیکس کی ادائیگی کے معاملات کو جان بوجھ کر پیچیدہ بنایا جاتا ہے تاکہ ٹیکس دینے والے ٹیکس وصولی کے ادارے کے اہلکاروں کے ہاتھوں میں کھیلنے پر مجبور ہو جائیں۔
پاکستان میں بڑے بڑے جاگیر داروں کی کمی نہیں ہے جن کی ہزاروں ایکڑ کی زرعی زمینیں ہیں جس سے وہ ہر سال کروڑوں روپے کماتے ہیں لیکن جب بھی زرعی ٹیکس کی بات ہوتی ہے تو چند ایکڑ کے مالک چھوٹے مالکان زمین سے بدمعاشی سے زرعی ٹیکس وصول کیا جاتا ہے ۔ چونکہ بڑے جاگیر دار اور ارب پتی کاروباری طبقے کے لوگ ہمیشہ اقتدار میں شامل ہوتے ہیں لہذا وہ ایسی ٹیکس پالیسیاں کیوں بنائیں کہ جس سے ان کے مفادات پر ضرب پڑتی ہو ۔ اعدادوشمار کے مطابق پچھلے سال تنخواہ دار طبقے نے 545 ارب روپے ٹیکس دیا جبکہ اس کے مقابلے میں برآمد کنندگان نے 180 اور تاجر طبقے نے محض 62 ارب روپے ٹیکس دیا ۔
آج بھی اخبارات میں وزیر اعظم کا بیان شائع ہوا ہے کہ ٹیکس کی وصولی میں کوتاہی برداشت نہیں کی جائے گی لیکن یہ نہیں کہا گیا کہ کن سے ؟
ہر کوئی جانتا ہے کہ ڈاکٹر برادری ہر سال پرائیویٹ پریکٹس سےکروڑوں روپے کما رہی ہے لیکن اگر انکے ٹیکس ریٹرنز دیکھے جائیں تو انسان حیران رہ جاتا ہے ۔ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ وہ طبقات جو اربوں روپے کماتے ہیں وہ عوام کے نمائندے بن کر پارلیمنٹ میں بیٹھے ہوئے ہوتے ہیں اس لیے وہ وہی پالیسیاں بناتے ہیں جن سے انکو ہی فائدہ ہوتا ہے ۔ ہر حکومت تاجر دوست انکم ٹیکس سکیموں کا اعلان کرتی ہے لیکن یہ سکیمیں کامیاب ہوتی ہوئی دکھائی نہیں دے رہیں ۔ اس وقت ملک میں چھوٹے سے چھوٹے پرچوں فروش کی دکان میں کم از کم دس لاکھ تک کا مال پڑا ہوتا ہے اگر یہ دکاندار جن کی تعداد ملک میں لاکھوں میں ہے سالانہ دس ، پندرہ ہزار کا فکس ٹیکس دینا شروع کردیں تو ان پر بھی بوجھ نہیں پڑے گا اور ملکی خزانے میں اربوں روپے بھی جمع ہو جایا کرینگے۔ فکس ٹیکس کا ایک فائدہ یہ بھی ہوگا کہ یہ لوگ انکم ٹیکس کے ادارے کے کرپٹ اہلکاروں کی بلیک میلنگ کا بھی شکار نہیں ہونگے اور آسانی سے اپنا ٹیکس ادا کیا کرینگے۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ اس وقت تنخواہ دار طبقے سے ٹیکس کی وصولی ایکسپورٹرز اور تاجروں سے بالترتیب 300 اور 500 فیصد ذیادہ ہے ۔
نان فائلرز کے ساتھ مزید سختیوں کی ضرورت ہے تاکہ وہ ٹیکس نیٹ میں شامل ہوکر ملکی معیشت کو ترقی دیں اور پاکستان کو عالمی مالیاتی اداروں کے چنگل سے نکالنے میں مدد دیں ۔ موجودہ بجٹ میں قریباً 800 ارب ڈالرز بیرونی قرضوں پر سود کی ادائیگی کی مد میں خرچ ہونگے یاد رہے صرف سود کی ادائیگی پر اصل زر کی تلوار تو ہماری گردنوں پر بدستور لٹکتی ہی رہیگی۔ یہ ملک کب تک آئی ایم ایف کے قرضوں ، بیرون ملک سے آنے والی ترسیلات زر اور تنخواہ دار طبقے کے ٹیکس پر ہی چلے گا اس ملک کے وسائل سے اصلی فائدہ اٹھانے والوں سے پوری طرح سے ٹیکس کب وصول کیا جائے گا ایک ایسا سوال ہے جس کو شاید انگریزی زبان میں ملین ڈالرز کا سوال کہا جاتا ہے ۔